ایران اور امریکہ ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں
16 اپریل 2009اگرچہ واشنگٹن اور تہران حکومتیں ایک دوسرے کے قریب آنے کے حوالے سے محتاط طرزِعمل اختیارکئے ہوئے ہیں لیکن صاف نظرآ رہا ہے کہ ان دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات پرجمی برف اب پگھلنا شروع ہو گئی ہے۔
اِس عمل کا اثرمحمود احمدی نژاد جیسی شخصیت پر بھی ہوا ہے، جو اب تک امریکہ کے ساتھ تعلقات میں سخت مَوقِف کی مجسم علامت تھے۔ عوام سے اپنے خطاب میں احمدی نژاد نے زوردے کرکہا کہ ایرانی ایک فراخ دل قوم ہیں، جو ماضی کی غلطیوں کو فراموش کرتے ہوئے ایک نئے باب کا آغاز کرسکتے ہیں۔ ساتھ ہی اُنہوں نے خبردارکرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ جو بھی ملک محض اپنے مفادات کو پیشِ نظررکھے گا، اُسے وہی جواب ملے گا، جو جورج ڈبلیو بُش کو دیا گیا ہے۔ تاہم احمدی نژاد نے ایران کے ساتھ ایٹمی مذاکرات میں شرکت سے متعلق واشنگٹن حکومت کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہوئے اعلان کیا کہ ایران اِن مذاکرات کے لئے نئی تجاویز سامنے لائے گا۔
یہ تجاویز کب تک تیار ہوں گی اوراُن میں کیا کیا کچھ شامل ہو گا، یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ سب کچھ محض واشنگٹن کے مفاہمانہ طرزِعمل کے جواب میں کچھ مثبت اشارے دینے کی حکمتِ عملی ہی ہو اوردونوں فریق حقیقی معنوں میں اپنے اپنے مَوقِف سے دستبردار ہونے پر تیارنہ ہوں۔ ایسا ہوا تو ایران آئندہ بھی اپنی ایٹمی پالیسیاں، خاص طور پر یورینیم کی افزودگی ترک کرنے پر تیار نہیں ہو گا۔ ابھی چند روز پہلے ایران نے جوہری ایندھن کے ایک پیداواری مرکز میں کام شروع ہونے کا جشن منایا۔ ایران کے نزدیک یہ مرکز اِس ملک کی استعداد اور اِس کے خود کفیل ہونے کا عملی ثبوت تھا، جس سے دستبردار نہیں ہوا جا سکتا۔
واشنگٹن حکومت بھی اب آہستہ آہستہ اِس بات کو سمجھنے لگی ہے اورامریکی وزیرخارجہ کلنٹن کی تردید کے باوجود کہا یہی گیا ہے کہ امریکہ موجودہ صورتِ حال پر اکتفا کرنے کے لئے تیار ہے بشرطیکہ ایران اپنی یورینیم کی افزودگی کو موجودہ مقدار پر ہی منجمد کردے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اوباما حکومت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے اُس مَوقِف سے دوری اختیار کرلے گی، جس میں بُش کے ایماء پر یہ کہا گیا تھا کہ ایران کو یورینیم کی افزودگی مکمل طور پرروکنا ہو گی ورنہ اُسے اقتصادی پبندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی ایران کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کی بات کرنے والے باراک اوباما اب ایران کے ایٹمی پروگرام پر مذاکرات میں شرکت کا اعلان کرچکے ہیں۔ تاہم اُنہوں نے اِس بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں رہنے دیا کہ وہ بھی یہ نہیں چاہتے کہ ایران ایٹمی ہتھیار تیار کرے یا اُنہیں اپنی دسترس میں لائے۔ ایران کا کہنا پہلے ہی یہ ہے کہ ایسا وہ چاہتا بھی نہیں۔
واشنگٹن اور تہران حکومتیں ایٹمی معاملے کو علاقائی تناظر میں دیکھنے کی بھی کوشش کر سکتی ہیں۔ اگر ایٹمی تخفیفِ اسلحہ کے سلسلے میں واشنگٹن حکومت کی کوششیں سنجیدہ ہیں تو پھر اُسے بھارت، پاکستان اور اسرائیل کو بھی اپنی کوششوں میں شامل کرنا چاہیے۔ اسرائیل کی جانب واشنگٹن حکومت پہلے ہی ایک واضح سیاسی پیغام دے چکی ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن عمل کا احیاء ایران کے جوہری مقاصد کو روکنے کا بہترین طریقہ ہے۔