1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستایران

ایران اور طالبان کا آپریشن، اسرائیلی ایجنٹ پکڑنے کا دعویٰ

5 نومبر 2023

ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق ایرانی حکام نے طالبان کے ساتھ ایک مشترکہ آپریشن کرتے ہوئے مبینہ طور پر اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے لیے کام کرنے والے تین ایجنٹوں کو گرفتار کر لیا ہے۔

ایران اور افغانستان کے مابین سرحد
ایران اور طالبان کا مشترکہ آپریشن، اسرائیلی ایجنٹ پکڑنے کا دعویٰتصویر: Fars

اس مشترکہ آپریشن کی اطلاع ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی اِرنا نے اتوار کو اپنے ٹیلی گرام چینل پر دی ہے۔ جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق یہ مشترکہ انٹیلی جنس سروس آپریشن دونوں ممالک کے درمیان افغانستان کے پہاڑی سرحدی علاقے میں کیا گیا۔

اِرنا کی رپورٹ کے مطابق پکڑے گئے ایجنٹ ایرانی اہداف پر ڈرون حملے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ بتایا گیا ہے کہ پکڑے جانے والے ایجنٹ ایرانی شہری ہیں اور انہیں جلد ہی پوچھ گچھ کے لیے ایران منتقل کر دیا جائے گا۔

ایران اور افغانستان کی سرحد 900 کلومیٹر سے زیادہ طویل ہےتصویر: Vahid Salemi/AP Photo/picture alliance

طالبان اور ایران کے مابین یہ اپنی نوعیت کا ایسا پہلا آپریشن ہے، جس کی ایران کی جانب سے اطلاع دی گئی ہے۔ ابتدائی طور پر طالبان کی جانب سے ایسے کسی آپریشن کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی ہے اور نہ ہی آزادانہ ذرائع سے اس کی تصدیق ممکن ہے۔

ایران کا سرکاری میڈیا اکثر موساد کے ایجنٹوں کی گرفتاری کی اطلاع دیتا رہتا ہے۔ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے کہ اسرائیل ایسی کسی رپورٹ پر ردعمل ظاہر کرے۔

1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران اسرائیل کو اپنے دشمن کے طور پر دیکھتا ہے۔

عمومی طور پر افغان ایران سرحد پر دونوں ملکوں کی سکیورٹی فورسز کے مابین جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوتی ہیں۔ ایران اور افغانستان کی سرحد 900 کلومیٹر سے زیادہ طویل ہے، جہاں اسمگلنگ کا کاروبار عروج پر ہے۔ اسی علاقے میں متعدد عسکری گروہ بھی فعال ہیں، جو ایران کے خلاف کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔

تاہم حال ہی میں ایران اور طالبان حکومت دیگر شعبوں کے ساتھ ساتھ دو طرفہ تجارت میں تعاون پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ یہ دونوں ملک چین کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کا بھی حصہ ہیں اور مستقبل میں بیجنگ حکومت کے ساتھ مل کر تجارت بڑھانا چاہتے ہیں۔

ا ا / ر ب (ڈی پی اے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں