ایران اور طالبان کو ایک دوسرے سے لڑانے کی کوششوں کی مذمت
10 جنوری 2022
تہران حکومت اور افغان طالبان نے ایران اور افغانستان سمیت خطے سے متعلق امریکی سیاست پر کڑی تنقید کی ہے۔ دونوں ہمسایہ ممالک نے کہا ہے کہ امریکا کی ایک اہم سیاسی حکمت عملی تہران اور کابل کے مابین اختلافات کو ہوا دینا ہے۔
اشتہار
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے افغانستان کے اعلیٰ ترین سفارت کار امیر خان متقی کے ساتھ تہران میں ہونے والی ایک ملاقات میں اتوار نو جنوری کی شام کہا کہ واشنگٹن حکومت کی اس خطے سے متعلق سیاسی اسٹریٹیجی کا ایک اہم حصہ افغانستان اور ایران کے مابین محاذ آرائی کا ماحول پیدا کرنا ہے۔
ایرانی خبر رساں ادارے تسنیم کا حوالہ دیتے ہوئے نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے پیر دس جنوری کے روز تہران سے اپنے مراسلے میں لکھا کہ عبداللہیان نے اس ملاقات میں زور دے کر کہا کہ امریکا اس خطے سے متعلق اپنے سیاسی ارادوں میں کامیاب نہیں ہو گا۔
اشتہار
ایران کا امریکا کو مشورہ
ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے امریکا کو یہ مشورہ بھی دیا کہ وہ اپنی ان غلطیوں سے سبق سیکھے جن کا ارتکاب اس نے گزشتہ بیس برسوں کے دوران اپنی افغانستان سے متعلق پالیسی میں کیا۔
اس موقع پر افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی کا کہنا تھا کہ امریکا نے گزشتہ برس موسم گرما میں ہندوکش کی اس ریاست سے اپنے آخری فوجی دستے بھی نکال تو لیے تھے، تاہم واشنگٹن اب تک افغانستان پر سیاسی اور اقتصادی حوالوں سے اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔
متقی کے مطابق اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ آج افغانستان کی آبادی کے 80 فیصد حصے کو غربت کا سامنا ہے اور ان کے مطابق اس کے لیے بھی امریکا ہی قصور وار ہے۔
ایرانی ویب سائٹ پر شائع شدہ خبر بےچینی کا باعث
تہران میں اتوار کی شام جب ایرانی اور افغان وزرائے خارجہ کی ملاقات ہو رہی تھی، تقریباﹰ اسی وقت ایرانی نیوز ویب سائٹ عصر ایران پر شائع شدہ ایک خبر کی وجہ سے کافی بےچینی بھی پیدا ہو گئی۔
اس نیوز ویب سائٹ نے لکھا تھا کہ ایرانی حکومت تہران میں افغان سفارت خانے کی عمارت طالبان کے حوالے کرنے پر تیار ہے۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے صدر اشرف غنی کے دور میں تہران میں تعینات کیے گئے افغان سفیر مبینہ طور پر ایران سے فرار ہو کر بیرون ملک جا چکے ہیں۔
کابل سے انخلا کا مشن، تصویروں میں
افغان طالبان کے پندرہ اگست کو ملکی دارالحکومت پر قبضے کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد افراد کو کابل سے نکالا جا چکا ہے۔ لیکن اس مشن کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری طالبان کے رحم و کرم پر ہیں۔
تصویر: U.S. Air Force/Getty Images
سفارتی عملے کا امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے انخلا
جیسے ہی افغان طالبان نے کابل کا محاصرہ کیا، شہر میں واقع امریکی سفارت خانے سے اس کا عملہ نکال لیا گیا۔ یہ تصویر پندرہ اگست کی ہے، جب امریکی چینوک ہیلی کاپٹر ملکی سفارتی عملے کے انخلا کے لیے روانہ کیے گئے۔ جرمنی نے بھی انخلا کے اس مشن کے لیے ہیلی کاپٹر اور چھوٹے طیارے روانہ کیے تھے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images
کابل ایئر پورٹ تک پہنچنے کی دوڑ
سولہ اگست کو کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مقامی لوگوں کا جم غفیر دیکھا گیا۔ یہ لوگ طالبان کے خوف سے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ایئر پورٹ کی حدود میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ ان افغان باشندوں کا کہنا تھا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کو جان و مال کے خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
تصویر: Reuters
کابل سے نکلنے کے لیے بے چین
یہ ڈرامائی منظر بھی کابل ایئر پورٹ کا ہے، جہاں لوگوں کا ہجوم ایک امریکی فوجی طیارے میں سوار ہونے کی ناکام کوششوں میں ہے۔ جہاز میں داخل ہونا تو ممکن نہیں تھا، لیکن متعدد افراد اس جہاز کے لینڈنگ گیئر اور پہیوں سے لپٹ گئے کہ شاید اسی طرح وہ کابل سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جب جہاز اڑا تو ان میں سے کئی افراد زمین گر کر ہلاک بھی ہو گئے۔
تصویر: AP Photo/picture alliance
دو دہائیوں بعد طالبان کی واپسی
افغانستان میں امریکی اتحادی فوجی مشن کے خاتمے سے قبل ہی افغان طالبان نے ملک بھر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اب کابل کی سڑکوں پر بھی یہ جنگجو سکیورٹی کے پیش نظر گشت کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کو خوف ہے طالبان اپنے وعدوں کے برخلاف انتقامی کارروائیاں کریں گے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
تحفظ کی تمنا
افغان لوگوں کے ہاتھ جو بھی لگا، انہوں نے سمیٹ کر کابل سے فرار کی کوشش شروع کر دی۔ ان کا رخ ایئر پورٹ کی طرف ہی تھا۔ جرمن ایئر فورس کا یہ طیارہ افغان باشندوں کو لے کر ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچا۔ انخلا کے مشن میں شریک زیادہ تر فوجی طیارے لوگوں کو لے کر تاشقند، دوحہ یا اسلام آباد اترے، جہاں سے ان افراد کو مسافر پروازوں کے ذریعے ان کی حتمی منزلوں تک لے جایا جائے گا۔
تصویر: Marc Tessensohn/Bundeswehr/Reuters
مدد کی کوشش
جرمنی میں امریکا کی رمشٹائن ایئر بیس پر پہنچنے والے افغان مہاجرین کو بنیادی اشیائے ضرورت کے اشد ضرورت تھی۔ اس ایئر بیس نے ایسے ہزاروں افغان شہریوں کو شیلٹر فراہم کیا جبکہ خوراک اور دیگر بنیادی ایشا بھی۔ لیکن ان کی آباد کاری کا معاملہ آسان نہیں ہو گا۔
تصویر: Airman Edgar Grimaldo/AP/picture alliance
طالبان کے دور میں زندگی
طالبان کی عملداری میں افغانستان کو چلانا آسان نہیں ہو گا۔ اب تک طالبان حکومت سازی کے کسی فارمولے کو طے نہیں کر سکے جبکہ اس شورش زدہ ملک کے لیے عالمی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ اس ملک میں بے گھر پانچ ملین افراد کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے آئی او ایم نے چوبیس ملین ڈالر کی ہنگامی مدد کی اپیل کی ہے تاکہ ابتر صورت حال سے نمٹا جا سکے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
محفوظ راستہ
چوبیس اگست کو لی گئی اس تصویر میں ایک امریکی فوجی ایک بچے کو حامد کرزئی ایئر پورٹ کی طرف لے جا رہا ہے تاکہ اس کو اس کے کنبے سے ملایا جا سکے۔ اکتیس اگست کو امریکی افواج کے انخلا کی تکمیل کے بعد یہ صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو جائے گی۔
تصویر: Sgt. Samuel Ruiz/U.S. Marine Corps/Reuters
ہزاروں پیچھے رہ جائیں گے
اگرچہ افغان عوام کے انخلا کا یہ آپریشن ختم ہو چکا ہے لیکن پھر بھی ہزاروں افراد کابل ایئر پورٹ کے گرد جمع ہیں۔ دہشت گردانہ حملوں کے باوجود یہ لوگ ہوائی اڈے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے۔ ایسی خفیہ رپورٹیں ہیں کہ کابل کے ہوائی اڈے کو مزید حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
تصویر: REUTERS
خوش قسمت لیکن مایوس
افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جانے والے افراد کی کیفیات ملی جلی ہیں۔ وہ خود کو خوش قسمت بھی تصور کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک مایوسی کا شکار بھی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے پیچھے کئی ملین ایسے ہم وطنوں کو چھوڑ کر اپنے ملک سے فرار ہوئے، جن کے حکمران طالبان ہیں۔
تصویر: Anna Moneymaker/AFP/Getty Images
اکتیس تاریخ آخری دن
افغانستان سے انخلا کے مشن کا آخری دن اکتیس اگست ہے۔ انخلا کے اس مشن میں شریک امریکی فوجی بھی منگل اکتیس اگست کو افغانستان سے نکل جائیں گے۔ جرمنی سمیت کئی دیگر اتحادی ممالک کی ریسکیو ٹیمیں گزشتہ ہفتے ہی اپنے مشن مکمل کر چکی ہیں۔
تصویر: picture alliance / newscom
11 تصاویر1 | 11
دونوں وزراء کی طرف سے تردید
ایرانی وزیر خارجہ عبداللہیان اور ان کے پہلی مرتبہ تہران کے دورے پر آئے ہوئے افغان ہم منصب متقی نے عصر ایران کی اس خبر کی فوری طور پر تردید کر دی۔ تاہم کئی مبصرین کا خیال ہے کہ تہران میں افغان سفارت خانے کا طالبان کے حوالے کیا جانا کوئی بہت غیر معمولی بات اس لیے نہیں ہو گی کہ دیگر ہمسایہ ممالک میں بھی افغان سفارت خانے اب کابل میں طالبان کی حکومت کے حوالے کیے جا چکے ہیں۔
کئی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ایرانی حکومت کی اس بارے میں سوچ ابھی تک منقسم ہے کہ اسے کابل میں برسراقتدار طالبان کے ساتھ آئندہ کس طرح کا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ چند ایرانی سیاست دانوں کے مطابق افغان طالبان اب پہلے والے طالبان نہیں رہے۔ اس کے برعکس کچھ ایرانی سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ کئی حالیہ واقعات اس تاثر کی نفی کرتے ہیں کہ افغان طالبان اب بدل چکے ہیں۔
م م / ع ب (ڈی پی اے،اے ایف پی)
ایران سے افغان مہاجرین کی تکلیف دہ واپسی
اقوام متحدہ کے مطابق ہم سایہ ممالک خصوصاﹰ ایران سے مہاجرین کو جنگ زدہ ملک افغانستان واپس بھیجا جا رہا ہے۔ صرف پچھلے ہفتے ایران سے چار ہزار افغان مہاجرین کو جبراﹰ واپس ان کے وطن بھیج دیا گیا۔
تصویر: DW/S. Tanha
ایک غیر یقینی مستقل
بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق 19 تا 25 نومبر کے دوران ہزاروں افغان مہاجرین کو ایران سے افغانستان واپس لوٹایا گیا۔ اس تنظیم کا کہنا ہےکہ مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجنے کی ایک وجہ ایران میں تارکین وطن کے لیے پناہ گاہوں کی اب تر ہوتی صورت حال ہے۔
تصویر: DW/S. Tanha
ایک تنہا سڑک
عالمی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق 89 فیصد مہاجرین، جنہیں واپس افغانستان بھیجا گیا، تنہا تھے، جن میں سے بڑی تعداد تنہا مردوں کی تھی۔ واپس بھیجے جانے والے مہاجرین میں فقط سات خواتین تھیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
پرانے مہاجرین کا تحفظ
افغان مہاجرین کو شدید سردی کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی تنظیم نے اس دوران ساڑھے سات سو مہاجر گروپوں کی امداد کی جن میں 127 تنہا بچے بھی شامل تھے، جب کہ 80 افراد کو طبی امداد دی گئی۔
تصویر: DW/S. Tanha
ایران میں مہاجرین سے نامناسب برتاؤ
اس شخص نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایران میں اسے بے دخل کرنے سے قبل ڈنڈے سے پیٹا گیا۔ اس کے مطابق اس کے پاس ایران میں کام کرنے کے باقاعدہ کاغذات بھی تھے مگر اسے واپس بھیج دیا گیا۔ ہرات میں ایرانی قونصل خانے کے ایک عہدیدار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ افغان مہاجرین کے خلاف سخت پالیسیاں اختیار نہیں کی جا رہیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
سخت سردی میں گھر واپسی کا راستہ بھی نہیں
ایران بدر کیے جانے والے اس مہاجر نے نام نہیں بتایا مگر اسے بارہ دن تک ایک حراستی مرکز میں کام کرنا پڑا تاکہ وہ اس قید سے نکل سکے۔ ’’یہاں سخت سردی ہے اور میری رگوں میں لہو جم رہا ہے۔‘‘ میں نے اپنا فون تک بیچ دیا تاکہ مجھے رہائی ملے۔ اب میں یہاں سرحد پر ہوں اور گھر واپسی تک کے پیسے نہیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
مشکل زندگی کو واپسی
بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین رواں برس ایران اور پاکستان سے وطن واپس پہنچے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ قریب 90 ہزار افراد افغانستان میں داخلی طور پر بے گھر ہیں اور مختلف کیمپوں میں نہایت کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔