ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین جوہری مذاکرات اگلے ہفتے سے
23 دسمبر 2021
ایرانی ایٹمی پروگرام سے متعلق تہران اور پانچ عالمی طاقتوں کے مابین طویل عرصے سے تعطل کا شکار جوہری مذاکرات آئندہ ہفتے بحال ہو جائیں گے۔ یورپی یونین کے مطابق یہ بات چیت ویانا میں پیر ستائیس دسمبر کو دوبارہ شروع ہو گی۔
اشتہار
جرمن دارالحکومت برلن سے جمعرات 23 دسمبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین 2015ء میں طے پانے والا جوہری معاہدہ گزشتہ چند برسوں سے اس حد تک تعطل کا شکار ہو چکا ہے کہ اس کے حتمی طور پر ناکام ہو جانے کا بھی شدید خطرہ ہے۔ اسی لیے اس معاہدے کو مکمل ناکامی سے بچانے کے لیے کافی عرصے سے یہ کوششیں جاری تھیں کہ کسی طرح اطراف کے مابین مکالمت بحال ہو جائے۔
مذاکرات ویانا میں ہی
اس بات چیت کا طویل تعطل کے بعد شروع ہونے والا گزشتہ دور اپنے ابتدائی مرحلے میں ہی اس وقت جمود کا شکار ہو گیا تھا، جب تہران کی طرف سے کیے گئے چند نئے مطالبات مکالمت کے فریقوں کے مابین نئی کشیدگی کا سبب بن گئے تھے۔
یورپی یونین کے مطابق تب اس بات چیت کو اس لیے ملتوی کیا گیا تھا کہ ایران کے اعلیٰ ترین مذاکرات کار کو یہ موقع دیا جا سکے کہ وہ واپس وطن جا کر ایرانی قیادت کے ساتھ تہران کے آئندہ موقف کے بارے میں مشاورت کر سکیں۔
ایران پر امریکی پابندیوں کا نفاذ، کیا کچھ ممکن ہے!
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے پہلے حصے کا نفاذ کر دیا ہے۔ بظاہر ان پابندیوں سے واشنگٹن اور تہران بقیہ دنیا سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ نومبر میں کیا جائے۔
تصویر: Reuters/TIMA/N. T. Yazdi
ٹرمپ نے پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تصویر: Shealah Craighead
رقوم کہاں جائیں گی؟
پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے پر عمل درآمد سات اگست سے شروع ہو گیا ہے۔ اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی کرنسی ڈالر تک رسائی کو محدود کرنا ہے تاکہ تہران حکومت اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو کر رہ جائے اور اُس کی معاشی مشکلات بڑھ جائیں۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتوں یعنی سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا اور اس سے بھی اُس کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ہوائی جہاز، کاریں اور قالین
سات اگست سے نافذ ہونے والی پابندیوں کے بعد ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں بھی خریدنے سے محروم ہو گیا ہے۔ ایران کی امپورٹس، جن میں گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر شامل ہیں، کی فراہمی بھی شدید متاثر ہو گی۔ جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
جلتی آگ پر تیل ڈالنا
ایران پر پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ رواں برس پانچ نومبر کو ہو جائے گا۔ اس پابندی سے ایران کی تیل کی فروخت کو کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے۔
تصویر: Reuters/R. Homavandi
نفسیاتی جنگ
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اُن کے ملک کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے تا کہ اُس کی عوام میں تقسیم کی فضا پیدا ہو سکے۔ روحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں چین اور روس پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے تیل کی فروخت اور بینکاری کے شعبے کو متحرک رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں امریکی مداخلت سے پہنچنے والے نقصان کا تاوان بھی طلب کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈیریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اُن کا بلاک ایران کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران سن 2015 کی جوہری ڈیل کے تحت دی گئی کمٹمنٹ کو پورا نہ کرنے پر بھی شاکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین یورپی تاجروں کے تحفظ کا خصوصی قانون متعارف کرا رکھا رکھا ہے۔
کرسمس کی چھٹیوں کے بعد آئندہ ہفتے پیر کے دن سے بحال ہونے والے ان مذاکرات کی سربراہی یورپی یونین کے اعلیٰ مندوب اینریک مورا کریں گے۔ یورپی یونین کے مطابق اس بات چیت میں ایران، برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس کے نمائندے شریک ہوں گے۔
امریکا بالواسطہ طور پر شریک
امریکا اس بات چیت میں بالواسطہ طور پر شریک ہو گا، کیونکہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں امریکا کے اس معاہدے سے یک طرفہ اخراج کا اعلان کر دیا تھا اور واشنگٹن تب سے عملاﹰ اس معاہدے کا حصہ نہیں ہے۔ تاہم اپنے پیش رو ٹرمپ کے مقابلے میں موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن یہ اشارے دے چکے ہیں کہ امریکا اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہونا چاہتا ہے۔
امریکا عالمی تجارت کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس پوزیشن کو وہ بسا اوقات اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ پابندیاں ایران، روس، کیوبا، شمالی کوریا اور شام پر عائد ہیں۔
تصویر: Imago
ایران
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
کمیونسٹ ملک شمالی کوریا بظاہراقوام متحدہ کی پابندیوں تلے ہے لیکن امریکا نے خود بھی اس پر بہت سی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکی پابندیوں میں ایک شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق ہے۔ ان پابندیوں کے تحت امریکا ایسے غیر امریکی بینکوں پر جرمانے بھی عائد کرتا چلا آ رہا ہے، جو شمالی کوریائی حکومت کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai
شام
واشنگٹن نے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت پر تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکا میں شامی حکومت کے اہلکاروں کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے ساری دنیا میں امریکی شہریوں کو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار یا شام میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Esiri
روس
سن 2014 کے کریمیا بحران کے بعد سے روسی حکومت کے کئی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کریمیا کی کئی مصنوعات بھی امریکی پابندی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس میں خاص طور پر کریمیا کی وائن اہم ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا نے ڈبل ایجنٹ سکریپل کو زہر دینے کے تناظر میں روس پرنئی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔
تصویر: Imago
کیوبا
سن 2016 میں سابق امریکی صدرباراک اوباما نے کیوبا پر پابندیوں کو نرم کیا تو امریکی سیاحوں نے کیوبا کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی شہریوں پر کیوبا کی سیاحت کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اوباما کی دی گئی رعایت کے تحت کیوبا کے سگار اور شراب رَم کی امریکا میں فروخت جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Ernesto
5 تصاویر1 | 5
ایران کے ساتھ یہ بین الااقوامی جوہری معاہدہ ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش رو رہنما باراک اوباما کے دور میں طے پایا تھا، جن کا تعلق جو بائیڈن کی طرح امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی سے تھا۔
اس معاہدے سے امریکا کے یکطرفہ اخراج کے بعد سابق امریکی صدر ٹرمپ نے تہران کے خلاف کئی ایسی پابندیاں دوبارہ عائد کر دی تھیں، جو باراک اوباما کے دور میں اٹھا لی گئی تھیں۔
اسی طرح ایران نے بھی اپنی جوہری تنصیبات میں یورینیم کو اس مقررہ حد سے کہیں زیادہ شرح تک افزودہ بنانا شروع کر دیا تھا، جس کا تعین فریقین نے مل کر 2015ء کے معاہدے میں کیا تھا۔
م م / ا ب ا (اے پی، ڈی پی اے)
جوہری معاہدے سے امريکا کی دستبرداری: ايرانی کاروباری ادارے پريشان