1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین جوہری مذاکرات اگلے ہفتے سے

23 دسمبر 2021

ایرانی ایٹمی پروگرام سے متعلق تہران اور پانچ عالمی طاقتوں کے مابین طویل عرصے سے تعطل کا شکار جوہری مذاکرات آئندہ ہفتے بحال ہو جائیں گے۔ یورپی یونین کے مطابق یہ بات چیت ویانا میں پیر ستائیس دسمبر کو دوبارہ شروع ہو گی۔

تصویر: EU Delegation in Vienna/Handout/AFP

جرمن دارالحکومت برلن سے جمعرات 23 دسمبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین 2015ء میں طے پانے والا جوہری معاہدہ گزشتہ چند برسوں سے اس حد تک تعطل کا شکار ہو چکا ہے کہ اس کے حتمی طور پر ناکام ہو جانے کا بھی شدید خطرہ ہے۔ اسی لیے اس معاہدے کو مکمل ناکامی سے بچانے کے لیے کافی عرصے سے یہ کوششیں جاری تھیں کہ کسی طرح اطراف کے مابین مکالمت بحال ہو جائے۔

مذاکرات ویانا میں ہی

اس بات چیت کا طویل تعطل کے بعد شروع ہونے والا گزشتہ دور اپنے ابتدائی مرحلے میں ہی اس وقت جمود کا شکار ہو گیا تھا، جب تہران کی طرف سے کیے گئے چند نئے مطالبات مکالمت کے فریقوں کے مابین نئی کشیدگی کا سبب بن گئے تھے۔

جوہری معاہدے پر مذاکرات کے لیے ایران کے پاس وقت بہت کم ہے، امریکا

یورپی یونین کے مطابق تب اس بات چیت کو اس لیے ملتوی کیا گیا تھا کہ ایران کے اعلیٰ ترین مذاکرات کار کو یہ موقع دیا جا سکے کہ وہ واپس وطن جا کر ایرانی قیادت کے ساتھ تہران کے آئندہ موقف کے بارے میں مشاورت کر سکیں۔

کرسمس کی چھٹیوں کے بعد آئندہ ہفتے پیر کے دن سے بحال ہونے والے ان مذاکرات کی سربراہی یورپی یونین کے اعلیٰ مندوب اینریک مورا کریں گے۔ یورپی یونین کے مطابق اس بات چیت میں ایران، برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس کے نمائندے شریک ہوں گے۔

امریکا بالواسطہ طور پر شریک

امریکا اس بات چیت میں بالواسطہ طور پر شریک ہو گا، کیونکہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018ء میں امریکا کے اس معاہدے سے یک طرفہ اخراج کا اعلان کر دیا تھا اور واشنگٹن تب سے عملاﹰ اس معاہدے کا حصہ نہیں ہے۔ تاہم اپنے پیش رو ٹرمپ کے مقابلے میں موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن یہ اشارے دے چکے ہیں کہ امریکا اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہونا چاہتا ہے۔

ایران جوہری معاہدہ فوراً بچائے، یورپی یونین

ایران کے ساتھ یہ بین الااقوامی جوہری معاہدہ ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش رو رہنما باراک اوباما کے دور میں طے پایا تھا، جن کا تعلق جو بائیڈن کی طرح امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی سے تھا۔

اس معاہدے سے امریکا کے یکطرفہ اخراج کے بعد سابق امریکی صدر ٹرمپ نے تہران کے خلاف کئی ایسی پابندیاں دوبارہ عائد کر دی تھیں، جو باراک اوباما کے دور میں اٹھا لی گئی تھیں۔

جی سیون ممالک کی ایران کو سخت وارننگ

اسی طرح ایران نے بھی اپنی جوہری تنصیبات میں یورینیم کو اس مقررہ حد سے کہیں زیادہ شرح تک افزودہ بنانا شروع کر دیا تھا، جس کا تعین فریقین نے مل کر 2015ء کے معاہدے میں کیا تھا۔

م م / ا ب ا (اے پی، ڈی پی اے)

جوہری معاہدے سے امريکا کی دستبرداری: ايرانی کاروباری ادارے پريشان

03:01

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں