ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین جوہری مذاکرات کا آغاز آج سے
6 دسمبر 2010ان مذاکرات کو دنیا بھر میں توجہ حاصل ہے۔ دو روزہ مذاکرات کا انعقاد ایک ایسے وقت ہو رہا ہے، جب حال ہی میں تہران میں ہونے والے دو الگ الگ بم حملوں میں ایک ایرانی ایٹمی سائنسدان ہلاک اور ایک زخمی ہوئے تھے۔ ایرانی عدلیہ کے نائب سربراہ سید ابراہیم رئیسی نے ایرانی سائنسدانوں کی ہلاکت کا ذمہ دار موساد کو قراردیتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے ملک کے اندر اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ایرانی سائنسدانوں کو ہلاک کیا ہے۔ اُدھر ایرانی خفیہ ایجنسی نے ان حملوں کا ذمہ دار امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ کو ٹھہرایا تھا۔
چھ تا سات دسمبر جنیوا میں چھ فریقی مذاکرات کی میز پر ہونے والی بات چیت کے بارے میں تاہم اب تک کچھ بھی وثوق کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ چند روز قبل ہی ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے کہا تھا کہ اُن کے خیال میں اس میٹنگ میں آئندہ کے مذاکرات کا ایجنڈا طے پا سکتا ہے۔ اس بیان کے بعد گزشتہ ویک اینڈ پراحمدی نژاد نے کہا تھا، ’ ایران جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے تحت محض اپنے حقوق کی بات کر رہا ہے، نہ اس سے زیادہ نہ اس سے کم۔‘
عالمی طاقتوں کے ساتھ ساتھ ویانا میں قائم جوہری توانائی کے عالمی ادارے IAEA کو شبہ ہے کہ تہران خفیہ طور پر اپنے ایٹمی پروگرام کو عسکری مقاصد کے لئے بروئے کار لا رہا ہے اور اسی وجہ سے جوہری توانائی کے عالمی ادارے کے معائنہ کاروں کو ایران کی جوہری تنصیبات کی غیر محدود چھان بین کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ گزشتہ ہفتے کے اختتام پر آئی اے ای اے کے سربراہ یوکیا امانو نے اس ضمن میں تہران پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے ایٹمی پروگرام کو شفاف بنائے۔
گزشتہ اگست کے وسط میں ایران کا پہلا ایٹمی پلانٹ روسی نگرانی میں مکمل ہو گیا تھا۔ تہران حکومت نے اعلان کیا تھا کہ نومبر میں ایک ہزار میگا واٹ کا یہ ’لائٹ واٹر ری ایکٹر‘ کام شروع کر دے گا تاہم طے شدہ پلان کے مطابق ایسا نہیں ہو سکا۔ ایرانی صدر نے اس بارے میں خزاں کے موسم کے آغاز پر خود اس امر کا اعتراف کیا تھا کہ ایران کے جوہری پروگرام کے چند شعبوں کو Stuxnet نامی انٹر نیٹ وائرس کے حملے کے سبب شدید نقصان پہنچا ہے۔ تاہم اس Cyber Attack سے ایرانی جوہری پروگرام کو پہنچنے والے نقصانات کا مکمل اندازہ اب تک پیش نہیں کیا گیا ہے۔ تاہم اس سے ایران کے جوہری پلانٹ کے مکمل طور پر کام شروع کرنے کے پلان میں سستی ضرور آئی ہے۔ اس بارے میں ایرانی ایٹمی پروگرام کے سربراہ علی اکبر صالحی نے کہا ہے کہ وہ امید کر رہے ہیں کہ اُن کا ایٹمی پلانٹ آئندہ فروری سے کام کرنا شروع کر دے گا۔
اُدھر آئی اے ای اے کے اندازوں کے مطابق ایرانی نیرکلیئر پروگرام پر ہونے والے سائبر حملے سے یورینیم کی افزودگی کے کاموں کو شدید نقصانات پہنچے ہیں۔ دریں اثناء ایران نے پہلی بار ملکی سطح پر یورینیم تیار کرنے کا اعلان کیا ہے، جسے افزودگی کے لیے اصفہان صوبے میں واقع ایک جوہری پلانٹ میں بھیج دیا گیا ہے۔
ایران نے اتوار سے پہلی بار ملک میں تیار کردہ یورینیم کے استعمال کا اعلان کیا تھا۔ اس سے قبل ایران جنوبی افریقہ میں تیار ہونے والی یورینیم کا استعمال کرتا رہا ہے جو اس نے 1970 میں وہاں سے برآمد کی تھی۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: ندیم گِل