ایران اور یورپی ممالک کے درمیان تجارتی طریقہ کار رائج
29 جون 2019
یورپی یونین نے امریکی پابندیوں کے باوجود ایران سے تجارت کا ایک میکینزم تیار کیا ہے۔ اس طریقہ کار کو متعارف کرانے کے بعد یورپی ممالک ایران کے ساتھ تجارتی عمل جاری رکھ سکیں گے۔
اشتہار
اس میکینزم کو انسٹیکس (NSTEX) کا نام دیا گیا ہے۔ انسٹیکس سے مراد 'انسٹرومنٹ اِن سپورٹ آف ٹریڈ ایکسچینج‘ ہے۔ اس طریقہ کار کے تحت یورپی کمپنیاں سخت امریکی پابندیوں کے باوجود ایران کے ساتھ کاروبار اور تجارت جاری رکھ سکیں گی۔
یورپی یونین کی جانب سے اس طریقہ کار کو جمعہ اٹھائیس جون کو متعارف کرایا گیا۔ اٹھائیس جون کو ہی آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ایران اور جوہری ڈیل کے امریکا کے علاوہ دیگر دستخط کنندگان کے نمائندوں کے درمیان ایک اہم میٹنگ ہوئی تھی۔ اس ملاقات کو تہران حکومت نے جوہری ڈیل کے ضامنوں کے لیے آخری موقع قرار دیا تھا۔
یورپی یونین کی جانب سے کہا گیا ہے کہ انسٹیکس میکینزم رائج کر دیا گیا ہے۔ فرانس، جرمنی اور برطانیہ سمیت سبھی یورپی ممالک اس کو استعمال کر سکیں گے۔ یورپی یونین کے مطابق اس نئے نظام کے تحت پہلی تجارتی ٹرانزیکشن پر عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ اس میکینزم کو سفارتی شیلڈ میسر ہو گی اور سامان کا تبادلہ براہ راست سرمائے کی منتقلی سے نہیں ہو گا۔
چند ہفتے قبل ایران نے امریکا کے علاوہ ڈیل پر دستخط کرنے والے بقیہ ممالک کو مطلع کیا تھا کہ امریکی اقتصادی پابندیوں کا سدباب نہ کیا گیا تو یورنیم کی افزودگی دوبارہ شروع کر دی جائے گی۔ اس تناظر میں ایران ایک مراسلہ بھی امریکا کے علاوہ دیگر دستخط کنندگان کو ارسال کر چکا ہے۔ اس مراسلے میں تہران حکومت نے عدم اقدامات کی صورت میں یورینیم کی افزودگی کا عمل سات جولائی سے بحال کرنے عندیہ دیا ہے۔
دوسری جانب حالیہ ایام میں ایران نے اپنی یورینیم افزودہ کرنے کی رفتار میں ایک چوتھائی اضافہ کیا ہے۔ یورپی ممالک ایران کو قائل کرنے کی کوشش میں ہیں کہ امریکی پابندیوں کے سبب متبادل طريقہ ہائے کار تلاش کرنے کا عمل جاری ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایران کی بے چینی کی وجہ داخلی سطح پر امریکی اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے شدید مالی مشکلات ہیں۔
ايک ایرانی ٹیلی وژن چينل کے مطابق وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے یورپی دستخط کنندگان کو رواں ہفتے کے دوران ایک اور خط میں جوہری ڈیل کی کمٹ منٹس پوری کرنے کی یاد دہانی کرائی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق انسٹیکس کو متعارف کرانا اس کمٹمنٹ کو پورا کرنے کی جانب ایک قدم ہے۔
امریکی پابندیوں کا نشانہ بننے والے ممالک
امریکا عالمی تجارت کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس پوزیشن کو وہ بسا اوقات اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ پابندیاں ایران، روس، کیوبا، شمالی کوریا اور شام پر عائد ہیں۔
تصویر: Imago
ایران
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
کمیونسٹ ملک شمالی کوریا بظاہراقوام متحدہ کی پابندیوں تلے ہے لیکن امریکا نے خود بھی اس پر بہت سی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکی پابندیوں میں ایک شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق ہے۔ ان پابندیوں کے تحت امریکا ایسے غیر امریکی بینکوں پر جرمانے بھی عائد کرتا چلا آ رہا ہے، جو شمالی کوریائی حکومت کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai
شام
واشنگٹن نے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت پر تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکا میں شامی حکومت کے اہلکاروں کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے ساری دنیا میں امریکی شہریوں کو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار یا شام میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Esiri
روس
سن 2014 کے کریمیا بحران کے بعد سے روسی حکومت کے کئی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کریمیا کی کئی مصنوعات بھی امریکی پابندی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس میں خاص طور پر کریمیا کی وائن اہم ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا نے ڈبل ایجنٹ سکریپل کو زہر دینے کے تناظر میں روس پرنئی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔
تصویر: Imago
کیوبا
سن 2016 میں سابق امریکی صدرباراک اوباما نے کیوبا پر پابندیوں کو نرم کیا تو امریکی سیاحوں نے کیوبا کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی شہریوں پر کیوبا کی سیاحت کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اوباما کی دی گئی رعایت کے تحت کیوبا کے سگار اور شراب رَم کی امریکا میں فروخت جاری ہے۔