1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران اور یورپی ممالک کے مابین جوہری پروگرام پر بات چیت

25 فروری 2025

ایران اور تین یورپی ممالک فرانس، برطانیہ اور جرمنی نے تہران پر عائد پابندیاں ہٹانے اور اس کے جوہری پروگرام پر مذاکرات دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

Helga Maria Schmid Generalsekretärin der OSZE
تصویر: Brendan Smialowski/AP/picture alliance

  ایران کے ایک سینئر سفارت کار نے دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ روز یورپی یونین کے ساتھ جوہری پروگرام کے حوالے سے بات چیت تعمیری رہی۔ جنیوا میں ہونے والی اس ملاقات میں فرانس، برطانیہ اور جرمنی اور ایران کے مابین اس معاملے پر بات چیت ہوئی۔

 ای تھری نامی گروپ میں شامل ان تینوں یورپی ممالک نے تہران کے جوہری پروگرام کے بارے میں دو ماہ سے بھی کم عرصے میں بات چیت کے دوسرے دور کے لیے جنوری میں ملاقات کی تھی۔ پچھلی بات چیت گزشتہ سال کے آخر میں نیویارک میں ہوئی تھی۔ ایران کو اس وقت اپنے جوہری پروگرام کی وجہ سے پابندیوں کا سامنا ہے۔

تہران کے نائب وزیر خارجہ برائے بین الاقوامی امور کاظم غریب آبادی نے ایکس پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا، ''میں نے ای تھری کے ساتھ ایک تعمیری ملاقات کا انعقاد کیا۔‘‘

غریب آبادی نے کہا کہ فریقین نے "جوہری پابندیوں کے خاتمے کے معاملات پر خیالات کا تبادلہ کیا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس سلسلے میں بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔

یہ ملاقات ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے اقوام متحدہ کی کانفرنس برائے تخفیف اسلحہ اور انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں شرکت کے موقع پر ہوئی۔

ایرانی جوہری معاہدہ: ملکی عوام کتنے پر امید ہیں؟

03:11

This browser does not support the video element.

گزشتہ ماہ ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں واپسی کے بعد سے یورپی ممالک نے ایران کے ساتھ مذاکرات اور تہران کے نیوکلیئر پروگرام پر نئے سرے سے توجہ مرکوز کی ہے۔

امریکی صدر کے طور پر اپنی پہلی مدت کے دوران، ٹرمپ نے تہران پر 'زیادہ سے زیادہ دباؤ‘ برقرار رکھنے کی پالیسی پر عمل کیا تھا۔ ٹرمپ نے امریکہ کو تہران کے ساتھ ایک تاریخی جوہری معاہدے سے الگ کیا اور تہران پر لاگو سابقہ پابندیوں کو بھی بحال کیا تھا۔

یاد رہے کہ ایران نے 2015 میں عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدہ کیا تھا، جس کے تحت اسے پابندیوں میں نرمی کے بدلے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنا تھا لیکن امریکہ نے 2018 میں اس معاہدے سے دستبرداری اختیار کی اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں، جس کے جواب میں ایران نے اپنی جوہری سرگرمیاں بڑھا دیں۔

ایران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن مقاصد کے لیے ہے اور وہ جوہری ہتھیار تیار کرنے کے کسی بھی ارادے سے انکار کرتا ہے۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کا کہنا ہے کہ ایران نے افزودہ یورینیم کی تیاری میں اضافہ کیا ہے۔ اس ایجنسی نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ ایران وہ واحد ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار نا ہونے کے باوجود  60 فیصد کی سطح  تک افزودہ یورینیم موجود ہے، جو کہ جوہری ہتھیار بنانے کی 90 فیصد سطح کے قریب ہے۔

ر ب/ ش ر (اے ایف پی)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں