ایران اپنی جوہری تنصیبات تک زیادہ رسائی دے، گروسی کا مطالبہ
23 نومبر 2021
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ رافائل گروسی نے تہران میں ملکی رہنماؤں سے اپنی ملاقاتوں میں مطالبہ کیا کہ ایران اقوام متحدہ کے اس ادارے کے ماہرین کو اپنی جوہری تنصیبات تک زیادہ اور بہتر رسائی دے۔
اشتہار
انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے سربراہ رافائل گروسی اپنے تازہ ترین دورے پر کل پیر کی شام تہران پہنچے تھے۔ انہوں نے آج منگل تیئیس نومبر کے روز ایرانی ایٹمی پروگرام کے سربراہ محمد اسلامی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں گروسی نے اسلامی سے کہا کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین 2015ء میں طے پانے والے اور گزشتہ چند برسوں سے تعطل کے شکار جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے عنقریب شروع ہونے والے مذاکرات کے پیش نظر تہران کو بین الاقوامی ماہرین کو اپنی ایٹمی تنصیبات تک زیادہ رسائی دینا چاہیے۔
ماضی میں اس دور کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے امریکا کے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے یک طرفہ اخراج کے اعلان کے بعد سے تہران نے اپنی ایٹمی تنصیبات میں یورینیم کی طے شدہ حد سے کہیں زیادہ افزودگی کا عمل شروع کر رکھا ہے۔
اس تناظر میں بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کا مطالبہ ہے کہ ایرانی حکومت اس ایجنسی کے معائنہ کاروں کو ملکی ایٹمی تنصیبات کی سکیورٹی فوٹیج تک رسائی دے۔ اس کے علاوہ اس بین الاقوامی ادارے کو یہ موقع بھی ملنا چاہیے کہ وہ یہ دیکھ سکے کہ ایران اب تک کتنا یورینیم کس حد تک افزودہ کر چکا ہے۔
ایرانی حکومت اب تک ان دونوں کاموں کی اجازت دینے سے انکاری ہے اور یہی بات اس معاملے میں تہران اور آئی اے ای اے کے مابین اختلاف رائے کی سب سے بڑی وجہ بھی ہے۔
گروسی کا ایران کا تیسرا دورہ
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے سربراہ رافائل گروسی اس وقت ایران کے جس دورے پر ہیں، وہ ان کا اس سال فروری سے لے کر اب تک اس ملک کا تیسرا دورہ ہے۔ آج منگل کے روز گروسی ایٹمی توانائی کی ایرانی تنظیم کے صدر دفتر بھی گئے، جہاں انہوں نے اس ادارے کے سربراہ محمد اسلامی سے ملاقات کی۔
اس ملاقات سے قبل گروسی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ ایرانی حکام کے ساتھ مل کر اب تک حل طلب امور کے حل تلاش کر لیے جائیں گے۔
امریکا عالمی تجارت کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس پوزیشن کو وہ بسا اوقات اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ پابندیاں ایران، روس، کیوبا، شمالی کوریا اور شام پر عائد ہیں۔
تصویر: Imago
ایران
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
کمیونسٹ ملک شمالی کوریا بظاہراقوام متحدہ کی پابندیوں تلے ہے لیکن امریکا نے خود بھی اس پر بہت سی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکی پابندیوں میں ایک شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق ہے۔ ان پابندیوں کے تحت امریکا ایسے غیر امریکی بینکوں پر جرمانے بھی عائد کرتا چلا آ رہا ہے، جو شمالی کوریائی حکومت کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai
شام
واشنگٹن نے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت پر تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکا میں شامی حکومت کے اہلکاروں کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے ساری دنیا میں امریکی شہریوں کو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار یا شام میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Esiri
روس
سن 2014 کے کریمیا بحران کے بعد سے روسی حکومت کے کئی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کریمیا کی کئی مصنوعات بھی امریکی پابندی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس میں خاص طور پر کریمیا کی وائن اہم ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا نے ڈبل ایجنٹ سکریپل کو زہر دینے کے تناظر میں روس پرنئی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔
تصویر: Imago
کیوبا
سن 2016 میں سابق امریکی صدرباراک اوباما نے کیوبا پر پابندیوں کو نرم کیا تو امریکی سیاحوں نے کیوبا کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی شہریوں پر کیوبا کی سیاحت کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اوباما کی دی گئی رعایت کے تحت کیوبا کے سگار اور شراب رَم کی امریکا میں فروخت جاری ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Ernesto
5 تصاویر1 | 5
ایٹمی ایجنسی اور ایران کے مابین خفیہ معاہدہ
ویانا میں قائم آئی اے ای اے اور ایران کے مابین ماضی میں ایک ایسا خفیہ معاہدہ بھی ہوا تھا، جسے 'اضافی پروٹوکول‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس معاہدے کے تحت اس عالمی ادارے کو یہ اجازت ہے کہ وہ ایرانی جوہری تنصیبات میں نصب سکیورٹی کیمروں کی تصاویر اور فوٹیج تک رسائی حاصل کر سکے اور پھر تجزیہ کرتے ہوئے یہ نتائج اخذ کر سکے کہ آیا ایران جوہری معاہدے کے تحت خود پر عائد ہونے والی ذمے داریاں پوری کر رہا ہے۔
اس معاہدے کے برعکس ایرانی پارلیمان نے دسمبر 2020ء میں ایک ایسا قانون منظور کر لیا تھا، جس کے تحت اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی طرف سے ایرانی جوہری تنصیبات کے معائنے کے عمل کو معطل کر دیا گیا تھا۔ تب اس معائنے کی بحالی کے لیے شرط یہ رکھی گئی تھی کہ جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والے یورپی ممالک کو اس سال فروری تک ایران کے خلاف تیل اور بینکنگ کے شعبوں میں عائد پابندیوں میں نرمی کو یقینی بنانا تھا۔
ایران پر امریکی پابندیوں کا نفاذ، کیا کچھ ممکن ہے!
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے پہلے حصے کا نفاذ کر دیا ہے۔ بظاہر ان پابندیوں سے واشنگٹن اور تہران بقیہ دنیا سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ نومبر میں کیا جائے۔
تصویر: Reuters/TIMA/N. T. Yazdi
ٹرمپ نے پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تصویر: Shealah Craighead
رقوم کہاں جائیں گی؟
پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے پر عمل درآمد سات اگست سے شروع ہو گیا ہے۔ اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی کرنسی ڈالر تک رسائی کو محدود کرنا ہے تاکہ تہران حکومت اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو کر رہ جائے اور اُس کی معاشی مشکلات بڑھ جائیں۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتوں یعنی سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا اور اس سے بھی اُس کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ہوائی جہاز، کاریں اور قالین
سات اگست سے نافذ ہونے والی پابندیوں کے بعد ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں بھی خریدنے سے محروم ہو گیا ہے۔ ایران کی امپورٹس، جن میں گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر شامل ہیں، کی فراہمی بھی شدید متاثر ہو گی۔ جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
جلتی آگ پر تیل ڈالنا
ایران پر پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ رواں برس پانچ نومبر کو ہو جائے گا۔ اس پابندی سے ایران کی تیل کی فروخت کو کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے۔
تصویر: Reuters/R. Homavandi
نفسیاتی جنگ
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اُن کے ملک کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے تا کہ اُس کی عوام میں تقسیم کی فضا پیدا ہو سکے۔ روحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں چین اور روس پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے تیل کی فروخت اور بینکاری کے شعبے کو متحرک رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں امریکی مداخلت سے پہنچنے والے نقصان کا تاوان بھی طلب کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈیریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اُن کا بلاک ایران کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران سن 2015 کی جوہری ڈیل کے تحت دی گئی کمٹمنٹ کو پورا نہ کرنے پر بھی شاکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین یورپی تاجروں کے تحفظ کا خصوصی قانون متعارف کرا رکھا رکھا ہے۔
یورپی ممالک نے چونکہ ایسا نہیں کیا تھا، اس لیے عالمی معائنہ کاروں کو اس سال فروری سے ایران نے اپنی تنصیبات کی نگرانی کی اجازت بھی نہیں دی۔ گروسی اپنے دورے کے دوران اسی حوالے سے پائے جانے والے جمود کو ختم کرنے کی کوشش میں ہیں۔
اشتہار
ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات
آئی اے ای اے کے سربراہ رافائل گروسی کو تہران میں محمد اسلامی سے ملاقات کے بعد آج ہی ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان سے بھی ملاقات کرنا تھی۔ محمد اسلامی کے ساتھ اپنی ملاقات کے بعد گروسی نے ان سے ہونے والی گفتگو کو 'بھرپور‘ قرار دیا۔
ساتھ ہی رافائل گروسی نے ایرانی ٹی وی سے نشر کی جانے والی ایک پریس کانفرنس میں کہا، ''فی الحال ہم اپنی مکالمت جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ کسی کامن گراؤنڈ تک پہنچ سکیں۔‘‘ گروسی نے مزید کہا کہ ان کا ادارہ ایرانی حکومت کے ساتھ بات چیت میں مزید تعاون کا خواہش مند ہے۔