ایران نے برطانیہ کی ایرانی نژاد امدادی کارکن نازنین زغاری ریٹکلف کو مزید ایک برس قید کی سزا سنائی ہے۔ جاسوسی کے الزام میں وہ پانچ برس پہلے ہی جیل میں سزا کاٹ چکی تھیں۔
اشتہار
ایرانی نژاد برطانوی خاتون کارکن نازنین زغاری ریٹکلف کے وکیل نے 26 اپریل پیر کے روز بتایا کہ تہران کی ایک عدالت نے انہیں مزید ایک برس قید کی سزا سنائی ہے۔ عالمی برادری نے اس فیصلے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
برطانوی کارکن کو یہ سزا ایک ایسے وقت سنائی گئی ہے جب ایران اپنے نازک جوہری معاہدے کو بچانے کے لیے عالمی طاقتوں سے گفت و شنید میں مصروف ہے۔
سزا کی وجوہات کیا بتائی گئی ہیں؟
تینتالیس سالہ برطانوی کارکن کے وکیل کا کہنا ہے کہ انہیں ایک برس قید کی سزا سنانے کے ساتھ ساتھ ان کے ملک سے باہر جانے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ انہیں یہ سزا مبینہ طور پر ملکی، ''نظام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے لیے دی گئی ہے۔''
ان کی قانونی ٹیم کے مطابق اس سزا کا تعلق سن 2009 میں لندن میں ایرانی سفارت خانے کے باہر ہونے والے مظاہرے سے ہے جس میں نازنین زغاری ریٹکلف نے بھی حصہ لیا تھا۔
اس سے قبل ریٹکلف گھر میں نظر بند تھیں جنہیں مبینہ جاسوسی اور ایرانی حکومت کے خلاف بغاوت جیسے الزامات کے تحت پانچ برس کی سزا مکمل ہونے کے بعد گزشتہ ماہ ہی رہا کیا گیا تھا۔ کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے نازنین زغاری کو گزشتہ مارچ میں وقتی طور پر جیل سے رہا کر کے تہران میں انہیں ان کے والدین کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔
اشتہار
”غیر انسانی اور غیر منصفانہ"
برطانوی وزیر خارجہ ڈومنک راب نے اپنے ایک بیان میں اس سزا کو، ''پوری طرح سے غیر انسانی اور غیر منصفانہ بتا یا۔'' انہوں نے کہا، ''ہم نازنین کی فوری رہائی کے اپنے مطالبے پر قائم ہیں تاکہ وہ رہا ہو کر برطانیہ میں اپنے لواحقین کے پاس واپس آ سکیں۔''
نازنین زغاری کے شوہر رچرڈ ریٹکلف نے کہا کہ یہ فیصلہ ایک غلط اشارہ ہے اور ایرانی حکام نے، ''واضح طور پر مذاکرات میں اسے ایک مہرے کے طور استعمال کرنے کے لیے ایسا کیا ہے۔''
ایک نفسیاتی جائزے سے پتہ چلا ہے کہ زغاری ریٹکلف، ''سنگین اور دائمی تکلیف دہ تناؤ، انتہائی افسردگی اور جنونی قسم کے عوارض میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے قید تنہائی میں ایک طویل وقت گزارا ہے اور گردن، کندھوں اور بازوؤں میں درد جیسی جسمانی تکالیف سے بھی دور چار ہیں۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ طویل وقت سے اپنے اہل خانہ سے جدائی، گھر میں نظر بندی کے دوران اور جیل میں قید کے دوران علاج نہ ملنے کی وجہ سے بھی وہ ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو گئی ہیں۔
لندن اور تہران کے درمیان عشروں پرانا تنازعہ
برطانیہ اور ایران کے درمیان 40 کروڑ پونڈ کا ایک پرانا تنازعہ ہے جسے دونوں ملک حل کرنے کے لیے بات چیت کر رہے ہیں۔ سن 1970 کی دہائی میں برطانیہ اور ایران کے مابین اسلحے کے ایک معاہدے کے ختم ہونے کے بعد تنازعہ کھڑا ہو گیا تھا، جس کے نتیجے میں لندن حکومت کو زر تلافی کے طور پرایران کو 40 کروڑ پونڈ کی رقم ادا کرنی تھی۔
ایران کے شاہ محمد رضا پہلوی نے سنہ 1979 میں برطانیہ سے ٹینک خریدے تھے اور رقم بھی دیدی تھی تاہم برطانیہ نے وہ ٹینک کبھی فراہم نہیں کیے۔ نازنین کے اہل خانہ اور بعض گروپوں کا کہنا ہے کہ ایران اس موضوع پر برطانیہ سے گفت و شنید کے لیے نازنین زغاری کو بطور مہرا استعمال کر رہا ہے۔ تاہم ایران اس سے انکار کرتا رہا ہے۔
بعض حلقوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران جوہری معاہدے پر بات چیت کے لیے بھی برطانوی شہری کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
امریکا اس معاہدے سے 2018 میں یکطرفہ طور پر الگ ہوگیا تھا اور اب اس حوالے سے بات چیت میں بھی برطانیہ کا اہم رول ہے۔
زغاری ریٹکلف 'تھامس روئٹرز فاؤنڈیشن' میں پروجیکٹ مینیجر تھیں۔ انہیں سن 2016 میں تہران ایئر پورٹ سے اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ اپنی بیٹی کے ساتھ برطانیہ واپس آ نے کی کوشش کر رہی تھیں۔ بعد میں ان پر حکومت کا تختہ پلٹنے کی کوشش کرنے کے الزامات عائد کیے گئے اور عدالت نے انہیں اس کے جرم میں پانچ برس قید کی سزا سنائی تھی۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی، روئٹرز)
ایران میں خامنہ ای مخالف مظاہرے
ایرانی حکومت کی جانب سے یوکرائنی ہوائی جہاز کو غلطی سے مار گرانے کو تسلیم کرنے پر عوام نے اپنی حکومت کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے دارالحکومت ایران سمیت کئی دوسرے شہروں میں کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NurPhoto/M. Nikoubaz
تہران میں مظاہرے
ایرانی دارالحکومت تہران میں سینکڑوں افراد حکومت مخالف مظاہروں میں شریک رہے۔ یہ مظاہرین ایرانی حکومت کے خلاف زور دار نعرے بازی کرتے رہے۔ ان مظاہرین کو بعد میں ایرانی پولیس نے منتشر کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
امیر کبیر یونیورسٹی
تہران کی دانش گاہ صنعتی امیر کبیر (Amirkabir University of Technology) ماضی میں تہران پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کہلاتی تھی۔ گیارہ جنوری سن 2020 کو ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے اس یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ کے سامنے کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/R. Fouladi
ایرانی مظاہرین کا بڑا مطالبہ
یونیورسٹی طلبہ کا سب سے اہم مطالبہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی دستبرداری کا تھا۔ ان مظاہرین نے مقتول جنرل قاسم سلیمانی کی تصاویر کو پھاڑا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ مظاہرے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی جاری کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
مظاہروں کا نیا سلسلہ
گیارہ جنوری کو مظاہرے تہران کے علاوہ شیراز، اصفہان، حمدان اور ارومیہ میں بھی ہوئے۔ امکان کم ہے کہ ان مظاہروں میں تسلسل رہے کیونکہ پندرہ نومبر سن 2019 کے مظاہروں کو ایرانی حکومت نے شدید انداز میں کچل دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
برطانوی سفیر کی تہران میں گرفتاری و رہائی
ایرانی نیوز ایجنسی مہر کے مطابق سفیر کی گرفتاری مظاہروں میں مبینہ شرکت کا نتیجہ تھی۔ ایرانی دارالحکومت تہران میں متعین برطانوی سفیر راب میک ایئر نے کہا ہے کہ وہ یونیورسٹی کے مظاہرے میں قطعاً شریک نہیں تھے۔ سفیر کے مطابق وہ یونیورسٹی کے باہر یوکرائنی مسافروں کے لیے ہونے والے دعائیہ تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے۔
تصویر: gov.uk
یوکرائنی طیارے کے مسافروں کی یاد
جس مسافر طیارے کو غلطی سے مار گرایا گیا تھا، اُس میں امیر کبیر یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ بھی سوار تھے۔ یونیورسٹی کے طلبہ نے اپنے مظاہرے کے دوران اُن کی ناگہانی موت پر دکھ کا اظہار بھی کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
سابق طلبہ کی یاد میں شمعیں جلائی گئیں
تہران کی امیرکبیر یونیورسٹی کے طلبہ نے یوکرائنی ہوائی جہاز میں مرنے والے سابقہ طلبہ اور دیگر ہلاک ہونے والے ایرانی مسافروں کی یاد میں یونیورسٹی کے اندر شمعیں جلائیں۔ یوکرائنی مسافر بردار طیارے پر نوے سے زائد ایرانی مسافر سوار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
مہدی کروبی کا مطالبہ
ایران کے اہم اپوزیشن رہنما مہدی کروبی نے بھی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خامنہ ای یوکرائنی کمرشل ہوائی جہاز کی تباہی کے معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کروبی ایران میں اصلاحات پسند گرین موومنٹ کے رہنما ہیں۔
تصویر: SahamNews
ڈونلڈ ٹرمپ اور ایرانی مظاہرین
ڈونلڈ ٹرمپ نے تہران حکومت خبردار کیا ہے کہ وہ ان مظاہرین پر ظلم و جبر کرنے سے گریز کرے۔ ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ وہ بہادر ایرانی مظاہرین کے ساتھ ہیں جو کئی برسوں سے مصائب اور تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق ایرانی حکومت پرامن مظاہرین کا قتل عام کر سکتی ہے مگر وہ یاد رکھے کہ دنیا کی اس پر نظر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
پندرہ نومبر سن 2019 کے مظاہرے
گزشتہ برس نومبر میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کئی بڑے ایرانی شہروں میں ہونے والے مظاہروں کو سخت حکومتی کریک ڈاؤن کا سامنا رہا تھا۔ یہ ایران میں چالیس سالہ اسلامی انقلاب کی تاریخ کے سب سے شدید مظاہرے تھے۔ بعض ذرائع اُن مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پندرہ سو کے لگ بھگ بیان کرتے ہیں۔ تصویر میں استعمال کیے جانے والے کارتوس دکھائے گئے ہیں۔