ایران بھر میں ’بے حجاب‘ خواتین کی شناخت کے لیے کمیرے نصب
9 اپریل 2023
ایرانی پولیس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ ملک کے ’ڈریس کوڈ‘ کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کی شناخت کے لیے عوامی مقامات پر ’سمارٹ‘ ٹیکنالوجی استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
اشتہار
اس اعلان میں مزید کہا گیا کے 'بے پردہ‘ خواتین کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ پولیس کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ وہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ثبوت کے طور پر ان کی تصاویر کے ساتھ انتباہی پیغامات بھیجے گی اور انہیں اس جرم کو دوہرانے کے قانونی نتائج سے خبردار کرے گی۔
ایرانی پولیس چیف احمد رضا رادان نے سرکاری ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، '' اگلے ہفتے سے حجاب کی پابندی نا کرنے والی خواتین کی شناخت سمارٹ ٹیکنالوجی آلات کے ذریعے کی جائے گی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''جو خواتین عوامی مقامات پر حجاب کی پابندی نہیں کریں گی، انہیں پہلے خبردار کیا جائے گا اور نا ماننے کی صورت میں انہیں گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے گا۔‘‘
ایرانی مظاہرین کے ساتھ دنیا بھر میں اظہار یکجہتی
ایران کی اخلاقی امور کی پولیس کی حراست میں 22 سالہ مھسا امینی کی ہلاکت کے بعد تہران حکومت مظاہرین کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ اختتام ہفتہ پر دنیا بھر میں ہزارہا افراد نے ایک بار پھر مظاہرے کیے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
پیرس
دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایرانی مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس کے وسط میں اتوار کے روز مظاہرین نے ’پلاس دے لا رےپُبلیک‘ سے ’پلاس دے لا ناسیون‘ تک مارچ کیا اور ’اسلامی جمہوریہ مردہ باد‘ اور ’آمر کی موت‘ کے نعرے لگائے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
استنبول، دیار باقر اور ازمیر
ترکی کے شہر استنبول میں منعقدہ مظاہروں میں متعدد ایرانی خواتین بھی شامل تھیں۔ سینکڑوں مظاہرین نے ایرانی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ وہ ’خواتین، زندگی، آزادی‘ جیسے نعرے لگا رہی تھیں۔ ترکی کے کُرد اکثریتی آبادی والے صوبے دیار باقر میں خاص طور پر خواتین نے ایرانی مظاہرین سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ مھسا امینی بھی کُرد نسل کی ایرانی شہری تھیں۔ اس کے علاوہ ترکی کے شہر ازمیر میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: Emrah Gurel/AP/picture alliance
برلن
جرمن دارالحکومت برلن میں تقریباﹰ پانچ ہزار افراد نے ایرانی حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نے خواتین پر تشدد کے خلاف بین الاقوامی یکجہتی اور خواتین کے قتل کے واقعات کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا۔ جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے ایرانی باشندوں کے ایک ترجمان نے خونریزی بند کیے جانے اور ایران میں جمہوری اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔
تصویر: Annette Riedl/dpa/picture alliance
بیروت
مشرق وسطیٰ میں بھی بہت سے شہری ایران میں احتجاجی تحریک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ لبنانی دارالحکومت بیروت میں مظاہرین قومی عجائب گھر کے باہر جمع ہوئے اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
تصویر: MOHAMED AZAKIR/REUTERS
لاس اینجلس
امریکہ میں بھی بہت سے مظاہرین ایران میں خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئے، جیسا کہ اس تصویر میں ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس کے سٹی ہال کے باہر۔ اس موقع پر موسیقاروں کے ایک گروپ نے روایتی ایرانی فریم ڈرم بجائے۔ اس کے علاوہ لندن، ٹوکیو اور میڈرڈ میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: BING GUAN/REUTERS
شریف یونیورسٹی، تہران
مظاہروں کے آغاز سے ہی ایرانی یونیورسٹیوں کے طلبا بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت اور اس کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ تہران میں سکیورٹی فورسز نے شریف یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبا اور پروفیسروں کے خلاف کارروائی کی۔ ایرانی شہر اصفہان میں اتوار کے روز ہونے والے تشدد کی ویڈیوز اور تصاویر بھی بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔
تصویر: UGC/AFP
6 تصاویر1 | 6
ساتھ ہی انہوں نے کار مالکان کو بھی متنبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''گاڑیوں میں سوار خواتین میں سے کوئی اسلامی ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کرتی ہے تو کار مالکان کو ایک انتباہی خط موصول ہو گا اور حکم عدولی کرنے کے جرم میں ان کی گاڑیاں ضبط کر لی جائیں گی۔‘‘
گزشتہ روز ایک اور بیان جاری کرتے ہوئے پولیس نے کہا تھا کہ وہ کسی بھی ایسے انفرادی یا اجتماعی رویے اور اقدام کو برداشت نہیں کرے گی، جو قانون کے خلاف ہو۔
گزشتہ ماہ ایرانی عدلیہ کے سربراہ غلام حسین محسنی ایجی نے بیان دیا تھا کہ حجاب کی پابندی نا کرنا عوامی اقدار سے دشمنی کے مترادف ہے اور جو لوگ اس طرح کی غیر اخلاقی حرکتیں کرتے ہیں، وہ سزا کے مستحق ہیں۔ ایران میں 1979 کے انقلاب کے بعد خواتین پر حجاب کی پابندی عائد کر دی گئی تھی۔