1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران: تیل و گیس کا سالانہ میلہ سج گیا

امجد علی6 مئی 2014

منگل سے ایرانی دارالحکومت تہران میں تیل اور گیس کا سالانہ میلہ شروع ہو گیا ہے۔ اس میلے میں 600 غیر ملکی کمپنیاں شریک ہیں، جو بین الاقوامی پابندیاں ہٹنے کی صورت میں بڑے پیمانے پر ایران میں واپسی کی تیاریاں کر رہی ہیں۔

تصویر: picture-alliance/dpa

ایران کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے، جو تیل اور گیس کے بے پناہ ذخائر کے مالک ہیں۔ ایران دنیا میں تیل کے چوتھے بڑے ذخائر کا مالک ہے جبکہ روس کے بعد گیس کے سب سے زیادہ ذخائر رکھنے والا دوسرا بڑا ملک ہے۔ تیل اور گیس کی صنعت اس ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے تاہم اس معیشت کو اُن امریکی اور یورپی پابندیوں کے نتیجے میں سخت نقصان اٹھانا پڑا، جو 2012ء میں ایران کے توانائی اور بینکنگ کے شعبوں پر عائد کی گئی تھیں۔

ایران کے خلاف اُس کے متنازعہ ایٹمی پروگرام کی پاداش میں عائد کی گئی ان پابندیوں کی وجہ سے بڑی کمپنیاں یا تو ایران چھوڑ کر نکل آئی تھیں یا پھر اُنہوں نے ایران کے ساتھ اپنے کاروبار کو بہت ہی محدود کر دیا تھا۔

ایران کے صدر حسن روحانیتصویر: Reuters

ان کمپنیوں کی غیر حاضری سے پیدا ہونے والی خالی جگہ کو ایشیا کی کچھ بڑی کمپنیوں نے پورا کرنے کی کوشش کی تاہم ابھی گزشتہ ہفتے ایران نے چین کی نیشنل پٹرولیم کارپوریشن کے ساتھ اپنا معاہدہ یہ کہتے ہوئے منسوخ کر دیا تھا کہ یہ کمپنی پیداواری ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔

اس سال جنوری میں اُس عبوری معاہدے پر عملدرآمد شروع ہوا تھا، جو ایران نے سلامتی کونسل کی پانچوں ویٹو طاقتوں اور جرمنی کے ساتھ طے کیا تھا۔ تب سے ایران کو یہ اجازت بھی دے دی گئی ہے کہ وہ روزانہ 1.2 ملین بیرل تک تیل برآمد کر سکتا ہے۔ واضح رہے کہ پابندیوں سے پہلے 2011ء کے اواخر تک ایران کی روزانہ برآمدات 250 ملین بیرل تک ہوا کرتی تھیں۔

حالیہ مہینوں کے دوران ایرانی صدر حسن روحانی اور وزیر تیل بیجان زنگانیہ کہہ چکےہیں کہ ایران بین الاقوامی کمپنیوں کی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر سے مستفید ہو گا۔

ایران کے سرکاری بیانات کے مطابق چھ مئی سے تہران میں شروع ہونے والے سالانہ میلے ’انٹرنیشنل آئل، گیس اینڈ پیٹروکیمیکل ریفائننگ ایگزیبیشن‘ کے لیے جن 600 کمپنیوں نے اپنے نام رجسٹر کروائے ہیں، اُن میں فرانس کی ٹوٹال اور جرمنی کی سیمینز کی علاقائی شاخیں بھی شامل ہیں۔ اس تجارتی میلے میں چینی کمپنیاں بھی شرکت کر رہی ہیں۔

24 نومبر 2013ء کی اس تصویر میں ایرانی طلبہ چھ غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے عبوری معاہدے پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo

نیوز ایجنسی اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے ایران کی وزارت تیل کے ایک ترجمان نعمت اللٰہی اکبر نے کہا کہ شریک غیر ملکی کمپنیوں کی تعداد 2013ء کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہے جبکہ ایرانی کمپنیوں کی تعداد پچاس فیصد اضافے کے ساتھ بارہ سو ہو گئی ہے۔

اسی دوران آئندہ ہفتے ایران اور جرمنی سمیت چھ عالمی طاقتوں کے درمیان آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے پانچواں مذاکراتی دور شروع ہو رہا ہے، جس میں ایران کی جوہری سرگرمیوں کو محدود بنانے کے سلسلے میں ایک زیادہ طویل المدتی معاہدہ طے کرنے کی کوششیں کی جائیں گی۔

ایک مقامی بزنس مین نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ایران میں توانائی کی منڈی بہت بڑی ہے اور پانچ سالہ منصوبے میں 150 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا پروگرام بنایا گیا ہے، جس میں سے کچھ سرمایہ بیرون ملک سے ملنے کی امید کی جا رہی ہے‘۔

اس کے برعکس تہران میں مقیم اور اس میلے میں شریک ایک اور اقتصادی ماہر نے محتاط انداز میں بتایا کہ دنیا کی تیل کا کاروبار کرنے والی بڑی کمپنیاں اس میلے میں اپنے نمائندے نہیں بھجیں گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں