ایران: جنتّی نے موسوی کی گرفتاری کا مطالبہ کردیا
21 اگست 2009ایران میں جون کے صدارتی انتخابات کے بعد موسوی کے حامیوں کے وسیع تر مظاہروں کے خلاف قدامت پسندوں کا غصہ ابھی تک ٹھنڈا نہیں ہوا۔ اس کا ایک ثبوت ایرانی محافظین انقلاب کے سربراہ آیت اللہ احمد جنّتی کا آج جمعہ کا وہ خطبہ ہے جس میں انہوں نے مظاہرین کے لیڈران کی بھی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے۔
ایرانی محافظین انقلاب کے سربراہ اور سخت حد تک اسلامی نظریات کے حامل آیت اللہ جنّتی نے تہران حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اُسے حالیہ دنوں میں محمود احمدی نژاد کے بطور صدر دوبارہ انتخاب کے خلاف ہوئے مظاہروں کا سختی سے نوٹس لینا چاہیئے۔ انہوں نے ناکام صدارتی امیدوار میر حسین موسوی کا نام لئے بغیر حکومت سے ان کی فوری گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا۔
تہران میں اپنے جمعہ کے ایک خطبے کے دوران آیت اللہ جنّتی نے کہا کہ صدارتی انتخابات کے نتائج کے خلاف چلائی جانے والی تحریک آج کے ایران کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ان کے بقول اس تحریک کے دوران کئے گئے مظاہروں میں شامل کچھ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، تاہم ان کے رہنما ابھی تک آزاد گھوم رہے ہیں۔
ایران میں 12جون کے صدارتی الیکشن کے اعلان کے بعد ملک بھر میں صدر احمدی نژاد کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے تھے جن کو سیکورٹی فورسز نے بری طرح کچل دیا تھا۔ ایرانی حکام کے مطابق ان مظاہروں میں 26 شہری ہلاک ہوئے تھے، تاہم میر حسین موسوی کے حامی ایسے ہلاک شدگان کی تعداد 69 کے قریب بتاتے ہیں۔ ساتھ ہی ایرانی اپوزیشن نے احمدی نژاد کی صدارت کی نئی مدت کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔
احتجاجی مظاہروں کے دوران کافی زیادہ تعداد میں اپوزیشن مظاہرین کوگرفتار کیا گیا تھا۔ گرفتار شدگان میں طلبہ، وکیل، صحافی، فنکار، سیاست دان اور کئی دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ان زیر حراست ایرانیوں کو جنسی، جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا یا جارہا ہے، جس پر مغربی ممالک میں شدید تشویش بھی پائی جاتی ہے۔ نوبل انعام یافتہ انسانی حقوق کی نامور ایرانی کارکن شیریں عبادی کہتی ہیں: ’’اگر ایران میں ان زیر حراست افراد کے خلاف عدالتی کارروائی کو منصفانہ بنانے کی کوششیں ناکام رہیں، تو دنیا صرف تماشائی نہیں بنی رہے گی۔ ایسی بین الااقوامی عدالتیں موجود ہیں جو جنسی زیادتی کے مقدمات کی سماعت کر سکتی ہیں۔‘‘
ایرانی صدر احمدی نژاد نے اس ماہ کے شروع میں دوبارہ حلف اٹھانے کے بعد جمعرات کو اپنی نئی کابینہ کے ارکان کے ناموں کا اعلان بھی کر دیا تھا۔ ایرانی صدر کی تجویز کردہ کابینہ میں تین خواتین بھی شامل ہیں۔ اطلاعات کے مطابق احمدی نژاد کو ایرانی پارلیمان سے اپنی کابینہ کے ارکان کی فہرست کو منظور کروانے میں کافی مشکل پیش آسکتی ہے، کیونکہ اس فہرست میں کئی نام ایسے ہیں جن پر پارلیمان میں ایرانی قدامت پسندوں کو شدید اعتراض ہوسکتا ہے۔
رپورٹ: انعام حسن
ادارت: مقبول ملک