1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران کا جنرل سلیمانی کے قاتلوں سے بدلہ لینے کا عہد

4 جنوری 2022

ایرانی صدر نے کہا کہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، سابق وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور دیگر امریکی عہدیداروں کے کردار کے لیے ان پر مقدمہ چلایا جائے اور سزا دی جائے، ورنہ ایران اس کا بدلہ لے گا۔

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی
ایرانی صدر ابراہیم رئیسیتصویر: Iranian Presidency/Handout/AA/picture alliance

ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کی دوسری برسی کے موقع پر پیر کے روز ٹیلی ویژن پرقوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عراق میں جنرل سلیمانی کے قافلے پرہلاکت خیز ڈرون حملے کا حکم دینے والے "اصل مجرم اور قاتل" کے طورپر ٹرمپ کو "حکم خدا وندی"کا سامنا کرنا پڑے گا اور " قصاص" دینا ہوگا۔

صدر رئیسی نے ایک ''منصفانہ عدالت" کے قیام کی بھی اپیل کی جس میں ٹرمپ، سابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور دیگر امریکی افسران کے خلاف مقدمہ چلایا جائے اور انہیں جنرل سلیمانی کے قتل میں ملوث ہونے کے جرم میں سزا دی جائے۔

انہوں نے مزید کہا، "ٹرمپ نے جنرل سلیمانی کے قتل کا ذاتی طور پر حکم دیا تھا اس لیے اصل قاتل کے طورپر ان کے خلاف بین الاقوامی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔"

اس وقت کے امریکی اٹارنی جنرل ولیم بار نے کہا تھا کہ ٹرمپ کو جنرل سلیمانی کو قتل کرنے کا اختیار تھا تصویر: picture-alliance/Captital Pictures/MPI/RS

بین الاقوامی برادری کی خاموشی کی مذمت

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے متنبہ کیا کہ اگر ٹرمپ کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا گیا تو "مسلمان اپنے شہید کا بدلہ لیں گے۔" انہوں نے مزید کہا کہ جنرل سلیمانی کو قتل کرنے کے لیے امریکی فضائی حملہ دراصل پوری ایرانی قوم پر حملہ تھا۔

خیال رہے کہ جنرل سلیمانی ایران کے پاسداران انقلاب کے فوجی انٹلیجنس ونگ کے کمانڈر تھے۔ وہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قریب تین جنوری 2020 کو ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔

تہران کا کہنا ہے کہ جنرل سلیمانی کو جس وقت قتل کیا گیا وہ ایک سفارتی مشن پر تھے۔ ایران نے انتقام کا مطالبہ کرتے ہوئے اس معاملے پر بین الاقوامی برادری کی خاموشی کی مذمت بھی کی۔

ابراہیم رئیسی نے گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کو ایک خط لکھ کر جنرل سلیمانی کے قتل کے خلاف ایک قرارداد منظور کرنے کی درخواست کی تھی۔

ایران نے اس سے قبل انٹرپول سے بھی درخواست کی تھی کہ وہ ٹرمپ اور دیگر درجنوں امریکی عہدیداروں کی گرفتاری کے لیے "ریڈ نوٹس" جاری کرے۔

ایران کے مستغیث اعلیٰ محمد جعفر منتظری نے سرکاری ٹیلی ویزن کو بتایا کہ جنرل قاسم سلیمانی کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث 127ملزمین بشمول 74 امریکی شہریوں کی ایک فہرست نو ملکوں کے عہدیداروں کو دی گئی ہے۔

جنرل سلیمانی کے قتل کے چند دنوں بعد امریکا نے اقوام متحدہ کو بتایا تھا کہ اس نے یہ قدم اپنے دفاع میں اٹھایا تھا۔ اس وقت کے امریکی اٹارنی جنرل ولیم بار نے کہا تھا کہ ٹرمپ کو جنرل سلیمانی کو قتل کرنے کا اختیار تھا اور جنرل ایک "قانونی فوجی ہدف" تھے۔

ایران میں جنرل سلیمانی کو قومی ہیرو کے طور پر دیکھا جاتا ہے جبکہ امریکی حکومت انہیں دہشت گرد سمجھتی ہے۔

ایران میں جنرل سلیمانی کو قومی ہیرو کے طور پر دیکھا جاتا ہےتصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare

جنرل سلیمانی کی یاد میں تقریبات

 ایران نے پیر کے روز ایک مقامی عدالت تشکیل دی ہے اور اس کے عہدیدارو ں نے ایرانی عوام سے کہا ہے کہ جنرل سلیمانی کے قتل کے سلسلے میں غیر ملکی طاقتوں کے خلاف اپنی شکایتیں عدالت میں باضابطہ درج کراسکتے ہیں۔

دریں اثنا جنرل سلیمانی کے قتل کی دوسری برسی کے موقع پر ایران کے مختلف شہروں میں متعدد پروگراموں کا انعقاد کیا گیا ہے جو ایک ہفتے تک جاری رہیں گے۔

تہران میں منعقد ایک تقریب میں فلسطین، شام اور یمن سمیت دیگر ملکوں کے اعلیٰ حکام اور سفراء نے شرکت کی۔ ایرانی میڈیا میں پیر کے روز سلیمانی کے حوالے سے پروگراموں کی بھرما ر تھی۔ ان کے ساتھ عراقی کمانڈر مہدی ابومہندس کے حوالے سے بھی پروگرام نشر کیے گئے۔ ابومہندس بھی جنرل سلیمانی کے ساتھ سفر کررہے تھے اور امریکی ڈرون حملے میں وہ بھی مارے گئے تھے۔

عراق میں بغداد بین الاقوامی ہوائی اڈے پر بھی تقریب منعقد کی گئی، جس میں ایران نواز ملیشیا گروپو ں نے امریکا مردہ باد کے نعرے لگائے۔

ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کون تھے؟

01:17

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں