عالمی جوہری توانائی کے ادارے کا کہنا ہے کہ ایران نے اہم جوہری امور پر بات چیت سے اتفاق کر لیا ہے۔ اس سے جوہری معاہدے کی بحالی کے امکانات مزید روشن ہوگئے ہیں۔
اشتہار
عالمی جوہری توانائی ادارے (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رفائل گراسی نے جمعرات چار مارچ کو ویانا میں صحافیوں کو بتایا کہ ایران نے ان تفتیش کاروں سے ملاقات کرنے پر اتفاق کیا ہے جو غیر اعلان شدہ متعدد مقامات پر یورینیم کی تفتیش کر رہے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایران نے کئی اہم وضاحت طلب امور پر بات چیت کے لیے اقوام متحدہ کے جوہری معائنہ کاروں کی جانب سے سلسلہ وار ملاقات کی پیش کش کو بھی قبول کر لیا ہے۔ اس سے قبل ایران نے یورینیم کی افزودگی سے متعلق معائنہ کاروں کے بہت سے سوالات کے جواب دینے سے منع کر دیا تھا۔
ایران نے حال ہی میں عالمی جوہری معائنہ کاروں کی رسائی معطل کر دی تھی جس پر جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے ایک مذمتی قرارداد پیش کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسی قرارداد کے روکے جانے پر اس نئی پیش رفت کا اعلان ہوا ہے۔ یہ قرارداد آئی اے ای اے کے بورڈ آف گورنرس کے سامنے اسی ہفتے پیش کی جانی تھی۔
ایران نے فیصلے کا خیر مقدم کیا
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے نے اس پیش رفت کے حوالے سے ایک بیان میں کہا، ''آج کی پیش رفت اس سفارت کاری کے لیے راستے ہموار کر سکتی ہے جس کی ایران اور آئی اے ای اے نے شروعات کی ہے۔''
ایرانی شاہ کے حرم کی نایاب تصاویر
اُنیس ویں صدی کے ایرانی فرمانروا ناصر الدین شاہ قاجار کی 80 سے بھی زائد بیویاں تھیں۔ اس بادشاہ کے حرم میں موجود ملکاؤں اور شہزادیوں کی تصاویر کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ اس وقت خوبصورتی کے معنی آج سے کس قدر مختلف تھے۔
تصویر: IICHS
تقریباﹰ تین ہزار سالہ طویل ایرانی بادشاہت کے امین ناصر الدین شاہ قاجار نے تقریباﹰ اڑتالیس برسوں تک ایران پر حکومت کی۔ جہاں پہلے تصویر کشی کا کام مصور سرانجام دیتے تھے، وہاں ناصر الدین شاہ قاجار نے حرم کے لیے ایک فوٹو گرافر مقرر کیا۔ ناصر الدین شاہ فوٹو گرافی کے بڑے شوقین تھے۔
تصویر: shafaf
ناصر الدین شاہ قاجار کی ایک بیوی تاج الدوله کی بیٹی شہزادی عصمت الدولہ (تصویر میں دائیں جانب) ایران میں پیانو بجانے والی پہلی خاتون تھیں۔ شاہ نے اپنے یورپ کے دورے پر پیانو دیکھا تھا اور پھر اسے اپنے یہاں منگوا لیا۔ تصویر میں نظر آنے والی چھوٹی بچی شہزادی عصمت الدولہ کی بیٹی فخر التاج ہے۔
تصویر: IICHS
ناصر الدین شاہ کو اپنی دو بیویاں تاج الدولہ اور انیس الدولہ بہت زیادہ عزیز تھیں۔ یہ تصویر شہزادی عصمت الدولہ کی ہے۔ شہزادی کے چہرے پر ہلکی مونچھیں نظر آ رہی ہیں کیونکہ اس زمانے میں چہرے پر سے بال ہٹانے کا رواج نہیں تھا۔
تصویر: IICHS
شاہ ناصر کے دور حکومت (1848ء تا 1896ء ) میں ان کےحرم میں کھینچی گئی تصاویر میں نظر آنے والی خواتین خوبصورتی کے آج کے معیار سے بالکل مختلف نظر آتی ہیں۔ یہ تصویر شہزادی تاج السلطنه کی ہے، جو شاہ کی ملکہ مریم توران السلطنه کی بیٹی ہیں۔ اس دور میں گھنی بھنویں اور ہلکی ہلکی مونچھیں خوبصورتی کی علامت ہوا کرتی تھیں اور انہیں سیاہ میک اپ کے ذریعے مزید ابھارا جاتا تھا۔
تصویر: IICHS
19 ویں صدی کے اس بادشاہ کے دور میں بچوں سے لے کر بڑوں تک کی تصاویر بنائی گئیں۔ اس تصویر میں ناصر الدین شاہ کی بیٹی عصمت الدولہ اور خاندان کے دیگر افراد کو دیکھا جا سکتا ہے۔ شاہ نے اپنے دربار میں دنیا کا پہلا باقاعدہ فوٹو اسٹوڈیو قائم کروایا۔ 1870ء کی دہائی میں شاہ نے ایک روسی فوٹو گرافر کو اپنے دربار کا سرکاری فوٹوگرافر مقرر کیا۔
تصویر: IICHS
اس تصویر میں خانم عمه بابا جان، خانم عصمت الملوک، عمو جان دیگر افراد کے ہمراہ نظر آ رہی ہیں۔ روسی فوٹو گرافر کو صرف شاہ اور ان کے مرد رشتہ داروں کی تصاویر لینے کی اجازت تھی لیکن حرم میں فوٹو گرافی صرف شاہ خود کرتے تھے۔ وہ ان تصاویر کو ڈیویلپ بھی خود کرتے تھے اور پھر تصاویر کو بڑے البموں میں محل کے اندر سجا کر رکھتے تھے۔
تصویر: IICHS
اُس دور میں شہزادیوں اور ملکاؤں کو پردے کا خاص اہتمام کروایا جاتا تھا۔ ایسے لباس صرف حرم میں ہی پہنے جا سکتے تھے اور ظاہر ہے ملک کے سب سے طاقتور شاہ ہی ایسی تصاویر بنانے کی ہمت کر سکتے تھے۔
تصویر: IICHS
حرم کی اس اندرونی تصویر سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کا حصہ بالکل الگ تھلگ تھا اور وہ آپس میں مل جل کر رہتی تھیں۔ اس تصویر میں یہ واضح نہیں ہے کہ خواتین کیا کر رہی ہیں لیکن تاریخ دانوں کے مطابق یہ کسی کھیل کا آغاز ہو سکتا ہے کیوں کہ حرم میں خواتین وقت گزارنے کے لیے مختلف کھیل بھی کھیلا کرتی تھیں۔
تصویر: IICHS
تصاویر میں شہزادیوں کے بھاری بھرکم جسم دیکھ کر لگتا ہے کہ تب ایسے ہی جسم خوبصورتی کی علامت تھے۔ خواتین چھوٹی اور کڑھائی والی سکرٹ پہنتی تھیں۔ ان کے علاوہ طویل کڑھائی والے فراک بھی شاہی خواتین کو بہت پسند تھے۔
تصویر: IICHS
کئی تصاویر ایسی بھی ہیں، جو شہزادیوں کی روز مرہ زندگی پر روشنی ڈالتی ہیں۔ اس تصویر میں ایک شہزادی کو درختوں سے انار اتار کر انہیں ایک جگہ ترتیب سے رکھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: IICHS
یہ تصویر عصمت الدولہ کی 1905ء میں وفات کے بعد لی گئی تھی۔ تب ملیریا لا علاج بیماری تھی اور اس شہزادی کی موت بھی اسی بیماری کی وجہ سے ہوئی تھی۔
تصویر: IICHS
آخری قطار میں دائیں جانب جہاں سوز مرزا کھڑے ہیں، درمیان میں یادالله مرزا اور بائیں جانب جہانگیر مرزا ہیں۔ دوسری قطار میں بائیں جانب بلقیس خانم ہیں (اہلیہ احمد مرزا معین الدوله)، مہر ارفع (اہلیہ احمد خان سرتیپ)، خانم تاج الدوله (اہلیہ ناصرالدین شاه)، جہاں بانو خانم (اہلیہ شاه شیر سوار) اور سب سے آگے جہان سلطان خانم ہیں، جو شمس الشعراء کی اہلیہ تھیں۔
تصویر: IICHS
اس تصویر میں عصمت الدولہ کی بیٹی عصمت الملوک کو اپنے خاوند مرزا حسن مستوفی الممالک کے ہمراہ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: IICHS
13 تصاویر1 | 13
سن 2015 میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے میں اس بات کا وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر ایران اپنے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے عمل کو شفاف طریقے سے روک دے تو اس پر عائد پابندیوں کو نرم کر دیا جائے گا۔
لیکن جب سابق صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے اس معاہدے سے امریکا کو سن 2018میں الگ کرتے ہوئے ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عائد کر دیں توایران نے بھی اپنی یورینیم کی افزودگی میں اضافہ کر دیا۔ اب جو بائیڈن کی انتظامیہ نے یہ کہہ کر اس معاہدے کے تئیں امیدیں جگا دی ہیں کہ کہ تمام فریق اس کو بچانے کے لیے پھر سے بات چیت کے لیے ایک ساتھ جمع ہوسکتے ہیں۔
ایک سفارتی ذرائع نے خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت میں رفائل گراسی کی کوششوں اور ایران کی نیک نیتی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یورپی حکومتوں کی جانب سے ایران کے خلاف مذمتی قرارداد روک دینے سے سفارت کاری کے لیے مزید وقت مل جائیگا۔
اشتہار
یورپ کا موقف کیا ہے؟
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے اس بارے میں خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹیڈ پریس سے بات چیت میں کہا کہ اس حوالے سے ملاقات سے قبل، ''تمام ممکنہ اقدامات کے متبادل پر بات چیت ایک عام بات ہے۔'' ان کا کہنا تھا کہ جوہری معاہدے کے حوالے سے ایران کی سنگین خلاف ورزیوں پر جرمنی، فرانس اور برطانیہ کو اب بھی تشویش لاحق ہے۔
جرمن وزارت خارجہ کا کہنا ہے، ''مجموعی طور پر، آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل ایران کے ساتھ سیف گارڈز کے متعلق جن مسائل پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں، ہم اس کی حمایت کرنا چاہیں گے۔''
خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں فرانس کے ایک سفارت کار کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں چیزیں درست سمت میں جا رہی ہیں اور ایران کی جانب سے مثبت اشارے بھی مل رہے ہیں۔
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، روئٹرز، اے پی)
ٹرمپ، اوباما، بُش: میرکل سبھی سے واقف ہیں
اضافی محصولات کا تنازعہ ہو یا پھر ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ، ڈونلڈ ٹرمپ جرمنی کے ساتھ لڑائی کے راستے پر ہیں۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ڈونلڈ ٹرمپ کے سوا سب امریکی صدور سے دوستانہ تعلقات رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/ M. Kappeler
کیا ہم ہاتھ ملا لیں؟
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
تصویر: Reuters/J. Ernst
نا امید نہ کرو!
سن دو ہزار سترہ میں جی ٹوئنٹی اجلاس کے موقع پر انگیلا میرکل نے بہت کوشش کی کہ ٹرمپ عالمی ماحولیاتی معاہدے سے نکلنے کی اپنی ضد چھوڑ دیں۔ مگر ایسا نہ ہو سکا اور اس اہم موضوع پر ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات ختم نہ ہوسکے۔
تصویر: Reuters/P. Wojazer
قربت پیدا ہو چکی تھی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق امریکی صدر باراک اوباما ایک دوسرے پر اعتماد کرتے تھے اور ایسا باراک اوباما کے بطور صدر الوداعی دورہ جرمنی کے دوران واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ باراک اوباما کے دور اقتدار کے بعد امریکی میڈیا نے جرمن چانسلر کو مغربی جمہوریت کی علامت اور ایک آزاد دنیا کی علمبردار قرار دیا تھا۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اعلیٰ ترین اعزاز
جون دو ہزار گیارہ میں باراک اوباما کی طرف سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو اعلیٰ ترین امریکی تمغہ آزادی سے نوازا گیا تھا۔ انہیں یہ انعام یورپی سیاست میں فعال کردار ادا کرنے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ اس اعزاز کو جرمنی اور امریکا کے مابین اچھے تعلقات کی ایک سند قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مہمان سے دوست تک
جون دو ہزار پندرہ میں جرمنی میں ہونے والے جی سیون اجلاس تک میرکل اور اوباما کے تعلقات دوستانہ رنگ اخیتار کر چکے تھے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف اوباما نے جرمن چانسلر کو ہر مدد کی یقین دہانی کروائی تھی۔ لیکن ٹرمپ کے آتے ہی یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔
تصویر: Reuters/M. Kappeler
ٹیکساس میں تشریف لائیے
نومبر دو ہزار سات میں جرمن چانسلر نے اپنے خاوند یوآخم زاور کے ہمراہ ٹیکساس میں صدر اوباما کے پیشرو جارج ڈبلیو بُش سے ملاقات کی۔ اس وقت بھی ایران کا موضوع زیر بحث رہا تھا، جیسا کی اب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Kugler
بار بی کیو سے لطف اندوز ہوں
جارج ڈبلیو بُش نے جولائی سن دو ہزار چھ میں جرمن چانسلر میرکل کو اپنے انتخابی حلقے میں مدعو کرتے ہوئے خود انہیں بار بی کیو پیش کیا۔ اسی طرح بعد میں جرمن چانسلر نے بھی انہیں اپنے انتخابی حلقے میں بلایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/BPA/G. Bergmann
بل کلنٹن کے ہاتھوں میں ہاتھ
جولائی دو ہزار سترہ میں سابق جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل کی تدفین کے موقع پر سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے ایک پرسوز تقریر کی۔ انگیلا میرکل کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ ہیلموٹ کوہل سے ’محبت کرتے‘ تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/M. Murat
یورپ کے لیے چیلنج
امریکی میڈیا کی طرف سے فرانسیسی صدر ایمانویل ماکروں کے دوستانہ رویے کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کو کس طرح شیشے میں اتارا جا سکتا ہے۔ تاہم حقیقی طور پر یہ صرف ظاہری دوستی ہے۔ امریکی صدر نے محصولات اور ایران پالیسی کے حوالے سے اپنے اختلافات برقرار رکھے ہیں، جو فرانس اور جرمنی کے لیے باعث فکر ہیں۔