امریکا نے ایران کو پابندیوں میں نرمی کرنے کا اشارہ تو کیا ہے تاہم جوہری معاہدے کے مذاکرات کو منزل تک پہنچنے کے لیے ابھی طویل راستہ طے کرنا ہے۔
اشتہار
امریکی وزارت خارجہ کے ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ واشنگٹن اور تہران سن 2015 کے ایران جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے اتفاق رائے تک پہنچنے سے ابھی کافی دور ہیں۔ صدر جو بائیڈن کو اپنے مقصد کے حصول میں اپوزیشن ریپبلیکن سے بھی سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر کہا کہ گوکہ ویانا میں واشنگٹن اور تہران کے درمیان پچھلے دنوں بالواسطہ بات چیت میں ”کچھ پیش رفت" ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان اس بات پر اب بھی اختلافات ہیں کہ مشترکہ جامع منصوبہ عمل (جے سی پی او اے) کے نام سے مشہور سن 2015 کے ایران جوہری معاہدے کے ضابطوں پر عمل درآمد کس طرح شروع کیا جائے۔
برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی نمائندگی کرنے والے ایک یورپی سفارت کار، جنہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے پر زور دیا، نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے عہدیدار کا کہنا تھا”اب بھی بہت سے امور پر اختلافات باقی ہے، بعض معاملات تو انتہائی اہم ہیں۔" ان کا مزید کہنا تھا ”ہم ابھی مذاکرات کے نتیجے کے قریب نہیں پہنچے ہیں۔ نتیجہ کیا نکلے گا، یہ اب بھی غیر یقینی ہے۔“
مذکورہ عہدیدار نے ایک کانفرنس کال کے ذریعہ نامہ نگاروں کو تازہ ترین پیش رفت سے آگاہ کیا۔
اختلافی امور
امریکی عہدیدار نے ایران کے خلاف عائد پابندیوں کے حوالے سے اگلے ممکنہ راحتی اقدام کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا۔
اشتہار
آسٹریا کے دارالحکومت میں ہونے والے مذاکرات میں امریکا باضابطہ شریک نہیں ہے البتہ وہ ثالثوں کے ذریعہ اپنی باتیں پہنچا رہا ہے۔
ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ امریکا نے اسلامی جمہوریہ کے خلاف حالیہ دنوں میں جو پابندیاں عائد کی ہیں ان کے حوالے سے تین نکات کو اجاگر کیا۔ یہ ہیں وہ پابندیاں جنہیں وائٹ ہاوس ختم کرنے کے لیے تیار ہے، وہ پابندیاں جو وہ نہیں ختم کرے گا اور وہ پابندیاں جن پر مزید غور و خوض کرنے کی ضرورت ہے۔
امریکی عہدیدار نے یہ واضح نہیں کیا کہ کون سی پابندیاں کس زمرے میں آتی ہیں تاہم کہا کہ تیسرے زمرے کا معاملہ سب سے پیچیدہ ہے۔ کیونکہ اس میں وہ پابندیاں شامل ہیں جن کے بارے میں موجودہ امریکی انتظامیہ کے عہدیداروں کا خیال ہے کہ سابقہ ٹرمپ انتظامیہ نے انہیں صرف اس لیے شامل کیا تھا تاکہ ایران کے لیے حتی الامکان زیادہ سے زیادہ مشکلات پیدا کی جا سکیں۔
ریپبلیکن 'زیادہ سے زیادہ دباو‘ کے حق میں
بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے ایران کو کسی بھی طرح کی نرمی کی پیشکش کی امریکی کانگریس میں اپوزیشن ریپبلیکن کی جانب سے سخت مخالفت کی جائے گی۔ اس ضمن میں انہوں نے ایک بل کا مسودہ بھی تیار کیا ہے جسے مائیک پومپیو نے گزشتہ روز میڈیا کے سامنے پیش کیا۔
اسلامی جمہوریہ کے خلاف پابندیوں میں کسی بھی طرح کی کمی کی اسرائیل کی جانب سے بھی مخالفت یقینی ہے، جو اسے اپنے وجود کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ خلیج کی بہت سی ریاستوں کو بھی ایران سے اسی طرح کے خدشات ہیں۔
خیال رہے کہ جے سی پی او اے کے ذریعہ اپنے جوہری پروگرام میں تخفیف کے عوض میں ایران کو اربوں ڈالر کی راحت دی گئی تھی۔ لیکن سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں تہران پر 'زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنے‘ کے اپنے اقدام کے تحت امریکا کو اس معاہدے سے یک طرفہ طورپر الگ کرلیا تھا اور نہ صرف ایران پر عائد سابقہ پابندیاں دوبارہ نافذ کردی تھیں بلکہ کچھ نئی پابندیوں کا اضافہ بھی کر دیا تھا۔
ج ا /ص ز (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔