ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکا اور ایران کے درمیان 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کی راہ میں حائل تعطل کو دور کرنے کا اشارہ دیا ہے۔
اشتہار
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے امریکا اور ایران کے درمیان سن 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے حوالے سے کہا ہے کہ کوئی ایسا طریقہ کار ہوسکتا ہے جس کے تحت وقت کا تعین کیا جاسکے یا جو کچھ بھی ممکن ہے اس کے لیے راہ ہموار کی جاسکتی ہے۔
جواد ظریف کا یہ بیان بائیس جنوری کو دیے گئے بیان سے مختلف ہے جس میں انہوں نے ایرانی موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس معاہدے میں تہران کے واپس لوٹنے سے پہلے امریکا کو ایران پر عائد پابندیاں ختم کرنی ہوں گی۔
خبر رساں ادارے ای ایف پی کے مطابق امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے جب ایرانی وزیر خارجہ سے سوال کیا کہ اس تعطل کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے تو جواد ظریف کا کہنا تھا،”آپ واضح طور پر جانتے ہیں کہ کوئی طریقہ کار ہو سکتا ہے جس کے تحت وقت کا تعین کیا جا سکے یا جو کچھ ممکن ہے اس کے لیے راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔"
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2018 میں امریکا کو ایران جوہری معاہدے سے الگ کر لیا تھا لیکن نئے صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ اگر ایران معاہدے کی شرائط پر 'سختی‘ سے عمل درآمد کرتا ہے تو واشنگٹن معاہدے میں دوبارہ شامل ہوسکتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت امریکا اور دیگر اقتصادی پابندیوں سے راحت کے بدلے میں ایران اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر راضی ہو گیا تھا۔
ایرانی وزیر خارجہ نے سی این این کے ساتھ انٹرویو میں مزید کہا کہ ایران ایک دن سے بھی کم وقت میں اپنے سابقہ وعدوں پر واپس آ سکتا ہے۔ تاہم بعض ذمہ داریاں پوری کرنے میں چند دن یا ہفتے لگ سکتے ہیں لیکن اتنا وقت نہیں لگے گا جتنا امریکہ کو اس انتظامی حکم پر عمل درآمد کرنے میں لگے گا جو ایران کے تیل، بینکاری، نقل وحرکت اور دوسرے شعبوں کو دوبارہ فعال بنانے کے لیے ضروری ہے جو سابق صدر ٹرمپ کے اقدامات کی وجہ سے متاثر ہوئے تھے۔
’ایران سے خطرہ‘، اسرائیل نے میزائل دفاعی نظام فعال کر دیا
01:06
یورپی یونین اپنا کردار ادا کرے
جواد ظریف نے یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ امریکا اور ایران دونوں کی جوہری معاہدے میں واپسی کی راہ ہموار کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
جواد ظریف کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسپ بورل کو 2015 میں ہونے والے معاہدے کے رابطہ کار کی حیثیت سے اس حوالے سے کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اقدامات جن کی امریکا اور ایران کو کرنے کی ضرورت ہے انہیں ایک طرح سے ترتیب دینی ہو گی۔
اشتہار
ابھی وقت لگے گا
خیال رہے کہ جوہری معاہدے سے امریکا کے الگ کرنے کے بعد ٹرمپ نے ایران پر بعض نئی پابندیاں بھی عائد کردی تھیں۔
بائیڈن انتظامیہ کا موقف ہے کہ امریکہ کو ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری معاہدے سے الگ کرنے کے ٹرمپ کے اقدام کے بہت برے نتائج سامنے آئے ہیں۔ ایران جوہری معاہدے سے دور ہو گیا اور اس کی جانب سے امریکی مفادات کی مخالفت بڑھ گئی۔
دریں اثنا امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ایک امریکی ٹیلی ویزن کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ امریکا فیصلہ کرنے کے بعد بھی بہت جلد جوہری معاہدے میں دوبارہ شامل نہیں ہو سکتا بلکہ اس میں کچھ وقت لگے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ "ہمیں اس بات کا جائزہ لینے میں کچھ وقت لگے گا کہ آیا ایران نے اپنی ذمہ داریاں اچھی طریقے سے پوری کی ہیں یا نہیں۔"
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔