ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں شامل ملکوں کی ایک ورچوئل میٹنگ کے بعد جرمن وزیر خارجہ نے امید ظاہر کی ہے کہ امریکا معاہدے میں واپس لوٹ آئے گا اور مثبت رویہ اختیار کرے گا۔
اشتہار
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ اس وقت فیصلہ کن موڑ پر ہے اور آنے والے ہفتے اور مہینے اس کی قسمت کا فیصلہ کردیں گے، تہران کو متنبہ کیا کہ 'اسے اب جو موقع دیا جا رہا ہے، اسے آخری موقع سمجھے اور اسے کسی صورت میں ضائع نہ کرے۔‘
ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کرنے والی عالمی طاقتیں اس معاہدے کو بچانے کی کوشش کر رہی ہیں اور انہیں امید ہے کہ امریکا دوبارہ اس معاہدے میں شامل ہوجائے گا لیکن یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ کیا ایران معاہدے کی نئی شرطوں کو تسلیم کرلے گا۔
اس معاہدے پر دستخط کرنے والے ملکوں کی گزشتہ ایک برس سے زیادہ کے عرصے میں ہونے والی پہلی اعلی سطحی میٹنگ کے بعد جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے کہا کہ امریکا کی جانب سے 'زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنے کی مہم‘ اور ایران کی جانب سے بعض شرائط پر انکار کی وجہ سے مذاکرات ’پیچھے کی طرف‘ جارہے ہیں۔
جرمنی، ایران، چین، روس اور برطانیہ کے وزرائے خارجہ کی طرف سے جاری ایک مشترکہ بیان میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو برقرار رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے اور نو منتخب صدر جو بائیڈن کے عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکا کے معاہدے میں واپسی کے امکانات کو'مثبت‘ قرار دیتے ہوئے اس کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن 2015 میں ہونے والے اس معاہدے کو 'تاریخ کا بدترین معاہدہ‘ قرار دیتے ہوئے سن 2018 میں امریکا کو اس سے یک طرفہ طور پر الگ کرلیا تھا۔
جوہری معاہدے سے امريکا کی دستبرداری: ايرانی کاروباری ادارے پريشان
03:01
بات نہیں عمل کی ضرورت ہے
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے ایران سے واضح لفظوں میں کہا کہ”بائیڈن انتظامیہ کے امریکا کی معاہدے میں ممکنہ واپسی کے لیے یہ ضروری ہے اب ایسی مزید پینترے بازی نہ کی جائے جو ہمیں حالیہ وقتوں میں اکثر دیکھنے کو ملتی رہی ہے۔ اس طرح کی حرکتوں سے معاہدے کو سوائے نقصان کے اورکچھ نہیں ہوگا۔ ہم یورپی ممالک اس بات پر مزید زور یتے ہیں کہ صرف شرائط کو تسلیم کرنا کافی نہیں ہوگا بلکہ بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہوگی۔"
برطانوی وزیر خارجہ ڈومنک راب نے ہائیکو ماس کی تائید کرتے ہوئے کہا”میں یہ بات بالکل واضح کردینا چاہتا ہوں کہ ایران نے حال ہی میں اپنے جوہری پروگرام کو توسیع کرنے کا جو اعلان کیا ہے اسے نافذ نہ کرے۔ ایسا کرنا پیش رفت کے لیے ان مواقع کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہوگا جن کی ہم 2021 میں امید کر رہے ہیں۔"
ہائیکو ماس نے کہا کہ 'اسرائیل کی سکیورٹی ہماری اولین ترجیح ہے‘ اور جرمنی اس امر کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار تیار نہ کرے۔
اشتہار
پرانا معاہدہ یا نیا معاہدہ
امریکا کی جانب سے پابندیاں عائد کرنے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران نے حال ہی میں معاہدے کی بعض شرطوں کی خلاف ورزی شروع کردی تھی جن پر وہ اپنے جوہری پروگرام کو روکنے کے بدلے میں مالی امداد دینے کی وجہ سے عمل کر رہا تھا۔
ایران پر امریکی پابندیوں کا نفاذ، کیا کچھ ممکن ہے!
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے پہلے حصے کا نفاذ کر دیا ہے۔ بظاہر ان پابندیوں سے واشنگٹن اور تہران بقیہ دنیا سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ نومبر میں کیا جائے۔
تصویر: Reuters/TIMA/N. T. Yazdi
ٹرمپ نے پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تصویر: Shealah Craighead
رقوم کہاں جائیں گی؟
پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے پر عمل درآمد سات اگست سے شروع ہو گیا ہے۔ اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی کرنسی ڈالر تک رسائی کو محدود کرنا ہے تاکہ تہران حکومت اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو کر رہ جائے اور اُس کی معاشی مشکلات بڑھ جائیں۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتوں یعنی سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا اور اس سے بھی اُس کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ہوائی جہاز، کاریں اور قالین
سات اگست سے نافذ ہونے والی پابندیوں کے بعد ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں بھی خریدنے سے محروم ہو گیا ہے۔ ایران کی امپورٹس، جن میں گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر شامل ہیں، کی فراہمی بھی شدید متاثر ہو گی۔ جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
جلتی آگ پر تیل ڈالنا
ایران پر پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ رواں برس پانچ نومبر کو ہو جائے گا۔ اس پابندی سے ایران کی تیل کی فروخت کو کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے۔
تصویر: Reuters/R. Homavandi
نفسیاتی جنگ
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اُن کے ملک کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے تا کہ اُس کی عوام میں تقسیم کی فضا پیدا ہو سکے۔ روحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں چین اور روس پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے تیل کی فروخت اور بینکاری کے شعبے کو متحرک رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں امریکی مداخلت سے پہنچنے والے نقصان کا تاوان بھی طلب کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈیریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اُن کا بلاک ایران کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران سن 2015 کی جوہری ڈیل کے تحت دی گئی کمٹمنٹ کو پورا نہ کرنے پر بھی شاکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین یورپی تاجروں کے تحفظ کا خصوصی قانون متعارف کرا رکھا رکھا ہے۔
گوکہ ایران نے بین الاقومی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کو اپنے جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دے دی اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور اس نے بعض دیگر شرائط بھی پوری کی ہیں تاہم وہ مقررہ حد سے زیادہ یورینیم افزودہ کر رہا ہے۔
جوہری معاہدے سے امریکا کے الگ ہوجانے اور ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ایران کے خلاف زبردست پابندیاں عائد کرنے نیز ایران کے ساتھ تجارت کرنے والوں کو پابندیوں کا نشانہ بنانے کے فیصلے کے بعد اس معاہدے کا وجود خطرے میں پڑ گیا تھا۔ معاہدے کو ختم کرنے سے قبل ٹرمپ انتظامیہ بارہا کہتی رہی تھی کہ ایران معاہدے کی شرطوں پر نہیں عمل کر رہا ہے۔
گزشتہ ماہ سخت گیر ایرانی سیاست دانوں نے ایک قانون منظور کرکے زیادہ یورینیم افزودہ کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ انہوں نے ایرانی جوہری تنصیبات تک آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کی رسائی پر روک لگانے کی بھی بات کہی تھی۔
امید کی جارہی ہے کہ جو بائیڈن کے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد، جو اس معاہدے پر دستخط کے وقت نائب صدر تھے، امریکا دوبارہ اس معاہدے میں واپس لوٹ سکتا ہے۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ برقرار ہے کہ کیا بائیڈن پرانے معاہدے کوتسلیم کریں گے، جو ایران کو پسند ہے، یا کسی نئے معاہدے پر زور دیں گے، جس میں ایران کی جانب سے مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مشرق وسطی میں اس کی مشتبہ سرگرمیوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے)
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔