1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران: حجاب مخالف خواتین کے 'علاج کے لیے' خصوصی کلینک

15 نومبر 2024

اس کلینک کی منصوبہ بندی کی نگراں کا کہنا ہے کہ یہ ایران کا پہلا کاؤنسلنگ کلینک ہے، جو حجاب پہننے سے انکار کرنے والی خواتین کا سائنسی اور نفسیاتی طریقے سے علاج کرے گا۔ لیکن اس اقدام کو جابرانہ بھی قرار دیا جا ریا ہے۔

ایرانی پولیس نے ملک کے ’ڈریس کوڈ‘ کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کی شناخت کے لیے عوامی مقامات پر کیمرے نصب کیے ہیں
ایرانی پولیس نے ملک کے ’ڈریس کوڈ‘ کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کی شناخت کے لیے عوامی مقامات پر کیمرے نصب کیے ہیں تصویر: IRNA

روزنامہ 'گارڈیئن' کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران نے حجاب کے لازمی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کے "علاج کے لیے" ایک خصوصی کلینک کھولنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔

ایران کی 'وزارت برائے امربالمعروف و نہی المنکر' میں شعبہ خواتین اور خاندانی امور کی سربراہ، مہری طالبی دریستانی کے مطابق اس کلینک کو "حجاب ہٹانے کے علاج کا کلینک" کا نام دیا گیا ہے۔

ایران میں حجاب کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کے خلاف مہم کا آغاز

دریستانی کا کہنا تھا کی اس کلینک میں ایرانی نئی نسل، نو عمر، نوجوان، بالغ خواتین کے ساتھ ساتھ ان خواتین کا بھی علاج کیا جائے گا جو اسلامی شناخت کی خواہاں ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ کلینک "حجاب ہٹانے کا سائنسی اور نفسیاتی علاج" پیش کرے گا۔

خیال رہے کہ ایران میں حجاب سے انحراف کی حالیہ لہر 2022ء میں 22 سالہ مہسا امینی کی پولیس کی تحویل میں ہلاکت کے بعد شروع ہوئی تھی، جس نے وقت کے ساتھ ساتھ زور پکڑ لیا ہے۔

ایرانی طالبہ کوما میں، مغربی رہنماؤں کی تہران پر کڑی تنقید

اسی لہر کے تحت حال ہی میں سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں ایک طالبہ کو نیم عریاں لباس میں تہران کی ایک یونیورسٹی کے باہر سڑک پر چلتے پھرتے دیکھا گیا۔ ایران کی اخلاقی پولیس نے خاتون کو شرعی قوانین کے مطابق لباس نہ پہننے پر گرفتار کر لیا۔

ایک خاتون کو نیم عریاں لباس میں ایک یونیورسٹی کے باہر سڑک پر چلنے پر گرفتار کرلیا گیا تھاتصویر: UGC

'کلینک نہیں جیل'

بہت سے ایرانیوں اور بین الاقوامی کارکنوں نے اس منصوبے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان خواتین کو بدنام کرتا ہے جو حجاب نہ پہننے کا انتخاب کرتی ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکنان نے مجوزہ کلینک کی مذمت کرتے ہوئے اسے جابرانہ اور بدنما قرار دیا ہے۔ ان کو خدشہ ہے کہ کلینک علاج کے مرکز کے طور پر نہیں بلکہ حراستی مرکز کے طور پر کام کرے گا۔

ایران بھر میں ’بے حجاب‘ خواتین کی شناخت کے لیے کمیرے نصب

برطانیہ میں مقیم ایرانی صحافی سیما ثابت نے اس تجویز کو "خوفزدہ کرنے والا" قرار دیا۔ ایرانی انسانی حقوق کے وکیل حسین رئیسی نے دلیل دی کہ اس کی جڑیں اسلامی یا ایرانی قانون میں نہیں ہیں۔ انہو‍ں نے کہا کہ کلینک کی نگرانی کرنے والی ایجنسی براہ راست سپریم لیڈر علی خامنہ ای کو رپورٹ کرتی ہے۔

اس اعلان نے "عورت، زندگی، آزادی" کے نعرے کے ساتھ احتجاج کرنے والے گروپوں کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے۔ دی گارڈیئن کے حوالے سے ایک نوجوان ایرانی خاتون نے کہا، ''یہ کلینک نہیں، یہ ایک جیل ہو گی۔"

سیما ثابت کا کہنا تھا کی ایرانی حکام بجلی جیسی روزمرہ کی ضرورتوں کی سہولت سے محروم لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے حجاب قانون کو نافذ کرنے کے نئے نئے طریقے اختیار کر رہے ہیں۔

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں حجاب قانون کی خلاف ورزیوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں اضافہ دیکھا گیا ہےتصویر: Ensafnews

کریک ڈاؤن میں اضافہ

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ حالیہ ہفتوں میں گرفتاریوں اور گمشدگیوں کی اطلاعات کے ساتھ حجاب قانون کی خلاف ورزیوں کے خلاف کریک ڈاؤن میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل نے نفسیاتی اداروں میں زیر حراست افراد کے ساتھ بدسلوکی پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور ان پر تشدد اور جبری ادویات کا الزام لگایا ہے۔

ایران میں انسانی حقوق کے مرکز نے حال ہی میں 25 سالہ روشنک مولائی علیشاہ کے معاملے کو اجاگر کیا، جنہیں ان کے لباس کی وجہ سے ایک شخص نے ہراساں کیا اور بعد میں حراست میں لیا گیا۔ ان کا موجودہ پتہ ٹھکانہ معلوم نہیں۔

خیال رہے کہ ستمبر 2022 میں، ایک 22 سالہ خاتون مہسا امینی کو مبینہ طور پر حجاب صحیح طریقے سے نہ پہننے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس حراست میں ہی ان کی موت ہو گئی تھی۔ امینی کی موت نے ملک گیر احتجاج کو جنم دیا، جو اب بھی جاری ہے۔

یہ خواتین کی آزادی و خودمختاری کا معاملہ ہے

01:05

This browser does not support the video element.

ج ا ⁄  ص ز (خبررساں ادارے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں