1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران: برہنہ ہونے پر گرفتار کی گئی لڑکی کو رہا کرنے ‏کی اپیل

5 نومبر 2024

انسانی حقوق کے کارکنان نے ایرانی حکام سے کہا ہے کہ اس خاتون کو رہا کر دیں، جسے یونیورسٹی میں اپنے کپڑے اتارنے کے بعد حراست میں لے لیا گیا تھا۔ بتایا جا رہا کہ طالبہ نے حجاب کے قانون کے خلاف بطور احتجاج کپڑے اتار دیے تھے۔

نیم برہنہ خاتون
تہران کی آزاد یونیورسٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ خاتون 'ذہنی عارضے' میں مبتلا تھیں اور اسی وجہ سے انہیں نفسیاتی ہسپتال بھی لے جایا گیا تھاتصویر: UGC

انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور کارکنان نے ایرانی حکام سے اپیل کی ہے کہ جس خاتون کو یونیورسٹی کے اندر اپنے کپڑے اتار دینے کے بعد برہنہ حالت میں گرفتار کیا گیا تھا، انہیں رہا کر دیا جانا چاہیے۔

واضح رہے کہ ہفتے کے روز سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی، جس میں تہران کی اسلامی آزاد یونیورسٹی میں شعبہ سائنس اینڈ ریسرچ کے اندر ایک خاتون کو اپنے زیر جامہ میں سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے دیکھا گیا تھا اور پھر انہیں فرش پر آرام سے چلتے ہوئے دکھایا گیا۔

اس حوالے سے ایک دوسری ویڈیو میں خاتون اپنا زیر جامہ اتارتی دکھائی دے رہی ہیں اور پھر اس کے فوری بعد سادہ لباس والے ایجنٹ انہیں زبردستی حراست میں لیتے ہیں اور گاڑی میں انہیں دھکیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

آزاد یونیورسٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ خاتون "ذہنی عارضے" میں مبتلا تھیں اور اسی وجہ سے انہیں نفسیاتی ہسپتال" بھی لے جایا گیا تھا۔

رہائی کی اپیل

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ان کی رہائی کی اپیل کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ "ان کی رہائی تک، حکام کو انہیں تشدد اور دیگر ناروا سلوک سے بچانا چاہیے، اور خاندان اور وکیل تک بھی رسائی کو یقینی بنانا چاہیے۔"

اس نے مزید کہا کہ "گرفتاری کے دوران ان کے خلاف مار پیٹ اور جنسی تشدد کے الزامات کی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کی بھی ضرورت ہے۔ ذمہ داروں کا احتساب ہونا چاہيے۔"

اس حوالے سے ایک ویڈیو میں خاتون اپنا زیر جامہ اتارتی دکھائی دے رہی ہیں اور پھر اس کے فوری بعد سادہ لباس والے ایجنٹ انہیں زبردستی حراست میں لیتے ہیںتصویر: UGC

ایران کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ، مائی ساتو نے اس واقعے کی فوٹیج سوشل میڈيا ایکس پر پوسٹ کی اور لکھا کہ وہ "حکام کے رد عمل سمیت اس واقعے کی قریب سے نگرانی کریں گی۔"

ایران کی نوبل امن انعام یافتہ کارکن نرگس محمدی، جو اس وقت ایران میں قید ہیں، نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کیس کے حوالے سے سخت فکر مند ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "خواتین خلاف ورزی کی قیمت ادا کرتی ہیں، لیکن ہم جبر کے سامنے جھکتے نہیں ہیں۔"

انہوں نے کہا، "یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والی طالبہ نے اپنے اس جسم کو، جو طویل عرصے سے جبر کے ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا آیا ہے، مخالفت کی علامت میں تبدیل کر دیا۔ میں اس کی آزادی اور خواتین کو ہراساں کرنے کے خاتمے کا مطالبہ کرتی ہوں۔"

حجاب کے خلاف احتجاج یا ذہنی مریض

تہران کی آزاد یونیورسٹی نے مذکورہ خاتون کو "ذہنی عارضے" میں مبتلا قرار دیا، جبکہ ایک ایرانی میڈيا نے خاتون کے مبینہ شوہر کو یہ کہتے ہوئے پیش کیا کہ اس ویڈیو کو شیئر کرنے سے گریز کریں۔

تاہم سوشل میڈیا پر بہت سے ایرانیوں نے اس دعوے پر سوال اٹھائے ہیں اور خاتون کے ان اقدامات کو ایران میں "عورت، زندگی، آزادی" تحریک کے ایک حصے کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس مہم کے تحت بہت سی خواتین نے عوامی سطح پر حجاب سے متعلق ان قوانین کی خلاف ورزی کی ہے، جس کے تحت انہیں اپنے بالوں کو ڈھانپنے اور لمبے، ڈھیلے ڈھالے لباس پہننے کی ضرورت ہوتی ہے۔

آزاد یونیورسٹی میں شعبہ سائنس اینڈ ریسرچ کے اندر ایک خاتون کو اپنے زیر جامہ میں سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے دیکھا گیا تھا اور پھر انہیں فرش پر آرام سے چلتے ہوئے دکھایا گیاتصویر: UGC

دو برس قبل یہ ملک گیر مہم ایک ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی "صحیح طریقے سے" حجاب نہ پہننے کی وجہ سے گرفتاری کے بعد پولیس کی حراست میں موت کے بعد شروع ہوئی تھی  اور اس کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران مبینہ طور پر 500 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

امیر کبیر نامی ایک ایرانی نیوز لیٹر ٹیلی گرام چینل، جو خود کو "ایرانی طلباء تحریک کی میڈیا" کے طور پر بیان کرتا ہے، اسی نے یونیورسٹی میں برہنہ ہونے کے واقعے کو سب سے پہلا شائع کیا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ ہیڈ اسکارف نہ پہننے پر یونیورسٹی میں پہلے خاتون کا سکیورٹی ایجنٹوں کے ساتھ جھگڑا ہوا، جس کے نتیجے میں ہاتھا پائی ہوئی اور اسی دوران خاتون نے بطور احتجاج اپنے کپڑے اتار پھینکے۔

امیر کبیر کے مطابق خاتون کا سر سادہ کپڑوں میں ملبوس ایجنٹوں کی گاڑی کے دروازے یا فریم سے اس وقت ٹکرا گیا جب انہیں حراست میں لیا جا رہا تھا۔ اس کی وجہ سے انہیں خون بہنے لگا اور انہیں نامعلوم مقام پر لے جایا گیا۔

بعض اطلاعات کے مطابق خاتون آزاد یونیورسٹی میں اپنی کلاس میں داخل ہوئی اور طلباء کی فلم بندی شروع کر دی۔ جب لیکچرر نے اس پر اعتراض کیا تو وہ چلاتے ہوئے وہاں سے چلی گئیں اور اس طرح جھگڑا شروع ہوا۔

اس دوران ایرانی میڈیا نے ایک ایسے شخص کی ویڈیو جاری کی جس کا چہرہ دھندلا تھا اور جس نے خود کو خاتون کا سابق شوہر ہونے کا دعویٰ کیا۔ انہوں نے عوام سے کہا کہ وہ ان کے دو بچوں کی خاطر اس ویڈیو کو شیئر نہ کریں ۔البتہ آزاد میڈيا ذرائع سے اس دعوے کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں