1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران: سیمرغ راکٹ کا کامیاب تجربہ

31 دسمبر 2021

ایرانی جوہری معاہدے کو بچانے کے لیے ویانا میں عالمی طاقتوں اور تہران کی بات چیت جاری ہے۔ اس دوران تہران نے سیٹیلائٹ کیریئر کے ذریعہ تین تحقیقاتی آلات خلاء میں کامیابی کے ساتھ بھیجنے کا دعوی کیا ہے۔

Start der iranischen Simorgh-Rakete 2017
تصویر: REUTERS

ایرانی سرکاری میڈیا نے جمعرات کے روز سیٹیلائٹ کیریئر کے ذریعہ تین تحقیقاتی آلات خلاء میں بھیجنے کی اطلاع دی۔ تاہم اس نے یہ نہیں بتایا کہ راکٹ خلاء میں کب بھیجا گیا اور بھیجے گئے یہ آلات کس نوعیت کے تھے۔ ابھی یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا راکٹ اپنے مقررہ مدار میں داخل ہو سکا یا نہیں۔

امریکا ماضی میں اس طرح کے تجربات کی نکتہ چینی کرتا رہا ہے۔ اس نے ایرانی جوہری معاہدے سے خود کو مئی 2018 ء میں یک طرفہ طور پر الگ کرنے کے بعد تہران کے خلاف کئی نئی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔

سیمرغ راکٹ کامیابی سے خلاء میں لانچ

ایرانی وزارت دفاع کے ترجمان سید احمد حسینی نے بتایا کہ 'سیمرغ‘ نامی اس راکٹ کو کامیابی سے خلاء میں لانچ کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس خلائی تحقیقاتی مشن میں پہلی مرتبہ 470 کلومیٹر کی بلندی اور 7350 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے تین آلات خلاء میں بھیجے گئے۔

حسینی نے کہا کہ سیٹیلائٹ کی لانچنگ کے تمام مراحل کو درست طریقے سے انجام دیا گیا اور اس لانچ کے مطلوبہ اہداف حاصل کیے گئے ہیں۔ انہوں نے تاہم تحقیقات کی نوعیت کی کوئی تفصیل نہیں بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں مزید راکٹ خلاء میں بھیجے جائیں گے۔

ایرانی ٹیلی وژن نے بتایا کہ سیمرغ کو امام خمینی خلائی مرکز سے روانہ کیا گیا۔ اس نے راکٹ لانچ کیے جانے کو 'ایرانی سائنس دانوں کی ایک اور کامیابی‘ قرار دیا۔

ایران کی سرکاری میڈیا نے حال ہی میں ملک کے سویلین خلائی پروگرام کے تحت آنے والے دنوں میں خلاء میں بھیجے جانے والے سیٹلائٹس کی ایک فہرست پیش کی تھی۔ایران کے پاسداران انقلاب فوج کا اپنا ایک متوازی خلائی پروگرام ہے اور اس نے گزشتہ برس ایک سیٹیلائٹ کامیابی کے ساتھ مدار میں پہنچایا تھا۔

تصویر: Iranian state television/AP/picture alliance

ایران جوہری معاہدہ بچانے کی کوشش جاری

خیال رہے کہ ایران کا مسلسل اصرار ہے کہ وہ کسی طرح کا جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کر رہا ہے اور سیٹیلائٹ لانچ کرنے اور راکٹ کے تجربات میں کسی طرح کا فوجی عنصر شامل نہیں ہے۔

ایران نے خلاء میں راکٹ ایسے وقت بھیجا ہے، جب عالمی طاقتیں ایرانی جوہری معاہدے کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں۔ تاہم اپنے بعض مطالبات پر ایران کے مصر رہنے کی وجہ سے کسی نتیجے پر پہنچنے میں دشواری پیش آ رہی ہے۔ مغربی سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ معاہدے کو بچانے کے لیے وقت ختم ہوتا جا رہا ہے۔ تین برس قبل سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس معاہدے سے یک طرفہ طور پر الگ ہو جانے کے بعد یہ ایک طرح سے معاہدہ ختم گیا تھا۔

معاہدے کو بحال کرنے کے لیے ویانا میں جاری مذاکرات میں شامل ایران کے اعلی مذاکرات کار علی باقری کنی نے ایران کے سرکاری ٹیلی وژن سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آٹھویں دور کی بات چیت کے پہلے چند دنوں میں فریقین کے درمیان نسبتاً اچھی پیش رفت ہوئی ہے۔

علی باقری نے امید ظاہر کی کہ سال کے اختتام کی چھٹیوں کی وجہ سے مذاکرات میں چند دن کے وقفے کے بعد بات چیت دوبارہ شروع ہونے پر فریقین ایران کے خلاف عائد پابندیاں اٹھانے کے حوالے سے زیادہ سنجیدگی سے کام کریں گے۔

ایران کے اعلی مذاکرات کار علی باقری کنیتصویر: Joe Klamar/AFP/Getty Images

واشنگٹن نے تاہم تہران کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا، "ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ آیا ایران اس دور کی بات چیت میں مزید تعمیری سوچ کے ساتھ شامل ہوا ہے۔"

دوسری طرف علی باقری کنی کا کہنا تھا کہ دوسرا فریق پابندیوں کو ہٹانے کے لیے جتنا زیادہ تیار ہو اور پابندیوں کو ہٹانے کے حوالے سے ایران کے پیش کردہ طریقہ کار، بالخصوص تصدیق اور ضمانت جیسے امور کو قبول کرنے میں جتنی زیادہ سنجیدگی اپنائے گا، اتنا ہی کم وقت میں کسی معاہدے تک پہنچا جا سکتا ہے۔

علی باقری نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اگر کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے ملک امریکا کو پہلے پابندیاں اٹھانی ہوں گی اور اسلامی جمہوریہ ایران، تصدیق کے بعد معاہدے کے فریم ورک کے اندر جوہری سرگرمیاں کرے گا۔

 ج ا/  ع ا  (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)

ایرانی جوہری معاہدہ: ملکی عوام کتنے پر امید ہیں؟

03:11

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں