1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران سے بہتر تعلقات، اوباما مشکل میں

زبیر بشیر25 ستمبر 2013

خارجہ معاملات پر صدراوباما کو امریکی اراکین کانگریس کی مخالفت کا سامنا ہے۔ انہوں نے پہلے اوباما کے شام پر حملے کے منصوبے سے پہلو تہی برتی اور اب ایران کے مسئلے پر ان کی پالیسی کے خلاف پر تولتے نظر آ رہے ہیں۔

تصویر: Reuters

حالیہ دنوں میں باراک اوباما کی خارجہ پالیسی کا ایک اہم ہدف یہ ہے کہ ایران کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لایا جائے۔ کانگریس کی جانب سے ایران پر لگائی گئی پہ در پہ پابندیوں نے اس کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ امریکی حکام کا خیال ہے کہ یہی وہ پابندیاں ہیں،جنہوں نے ایران کو لچکدار رویہ اپنانے پر مجبور کیا ہے اور تہران حکومت رواں ہفتے اپنے جوہری پروگرام سے متعلق بات چیت کا دوبارہ آغاز کر دے گی۔

امریکی اراکین کانگریس اگر یہ سمجھیں کہ تہران حکومت بات چیت کے لیے سنجیدہ ہے اور وہ اپنے جوہری پروگرام سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہے تو انہیں یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ایران پر عائد پابندیاں ختم کردیں یا عارضی طور پر معطّل کردیں لیکن بہت سے ریپبلکن اور اوباما کے ڈیموکریٹس نئے ایرانی صدر حسن روحانی کے بیانات کے باجود ایران کے کردار کے حوالے سے شاکی ہیں۔

ایرانی صدر حسن روحانی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے۔تصویر: Getty Images

ریپبلکن سینیٹر جان مکین، لنڈ سےگراہم اور کیلی ایوٹے نے ایران کے بارے میں اوباما کے نرم رویے کے حوالے سے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے، ’’ہمیں کسی بھی نتیجے پر پہنچنے سے قبل صورت حال کا بغور جائزہ لینا چاہیے اور ایران کو کسی بھی صورت یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ مذاکرات کو وقت ضائع کرنے اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے استعمال کرے‘‘۔

امریکا کے بہت سے اراکین کانگریس اسرائیل کے اس مؤقف کے ہم خیال ہیں کہ ایران خفیہ طور پر اپنے جوہری ہتھیاروں کی تیاری جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایران کا جوہری پروگرام ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر ریپبلکن اور ڈیموکریٹس دونوں ہم رکاب نظر آتے ہیں۔ امریکی سینٹ اور ایونِ نمائندگان نے بارہا ایران پر پابندیاں سخت سے سخت تر کرنے کے لیے قراردایں پاس کی ہیں۔

جمعرات سے ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہو رہا ہے۔ اس موقع پر اگر ایران کی جانب سے کوئی مثبت پیش رفت نظر آتی ہے توامریکی صدر کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ ایران کے خلاف پابندیوں کو 120 روز کے لیے معطّل کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہیں کانگریس کی اجازت درکار نہیں ہے۔ امریکی صدر اپنا یہ اختیار دو مرتبہ استعمال کر سکتے ہیں۔

امریکی سینیٹر جان مکینتصویر: REUTERS

آرون ڈیوڈ ملِر جو کہ امریکی وزارت خارجہ کے ایک سابق اعلیٰ عہدیدار رہ چکے ہیں اور آج کل ووڈرو ویلسن سینٹر واشنگٹن سے وابستہ ہیں اس حوالے سے کہتے ہیں،’’ اس میں کوئی حرج نہیں امریکی کانگریس ایران کو شک کا فائدہ دے کر عارضی ریلیف دے اور اگر وہ ایران کی جانب سے کوئی ایسا اقدام دیکھیں جس پر انہیں شک ہو تو وہ یہ سہولت واپس بھی لے سکتے ہیں۔‘‘

منگل کے روز جن 11 ریپبلکن سینیٹرز نے شام پرامریکی حملے کی مخالفت کی تھی۔ انہوں نے ایران کے بارے میں بھی سخت رویہ اپنانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ ان سینیٹرز میں سن 2016 کے صدارتی انتخابات کے ممکنہ امیدواروں میں سے ایک سینیٹر مارکو روبیو بھی شامل ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں