ایران سے جرمنی آنے والے طیارے کے لینڈنگ گیئر سے لاش برآمد
28 اکتوبر 2022
پولیس کے مطابق جرمن ایئرلائن لفتھانزا کی پرواز تہران سے فرینکفرٹ آئی تھی، جس کے لینڈنگ گیئر میں ایک لاش پائی گئی۔ پولیس نے اس لاش کی شناخت کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا۔
اشتہار
جرمن پولیس کا کہنا ہے کہ ایرانی دارالحکومت تہران سے جرمن شہر فرینکفرٹ آنے والے ایک طیارے کے لینڈنگ گیئر والے حصے میں ایک لاش ملی ہے۔جرمن اخبار بِلڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق جرمن کمپنی لفتھانزا کے ایئربس طیارے نے جمعرات کی صبح تہران سے اڑان بھری تھی۔
پولیس نے بتایا کہ فرینکفرٹ ایئر پورٹ پر کام کرنے والے زمینی عملے کے ارکان کو طیارے کی دیکھ بھال کا کام کرتے ہوئے یہ لاش ملی۔ جرمن مقامی نشریاتی ادارے Hessenschau نے بتایا کہ لاش ملنے سے قبل اس طیارے پر چار گھنٹے تک کام کیا جاتا رہا تھا۔
پولیس نے لاش کی تصدیق نہیں کی اور نہ ہی اس شخص کی شناخت کے بارے میں کوئی تفصیلات فراہم کی ہیں۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق لفتھانزا کے اس طیارے کی جمعے کی صبح کے لیے طے شدہ پرواز کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ جرمنی میں ایرانی نژاد افراد کی ایک بڑی آبادی ہے، جن میں سے ہزاروں افراد ہفتے کے روز برلن کی سڑکوں پرایران میں جاری حکومت مخالف مظاہروں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ھی نکلے تھے۔
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئرباک نے بھی تہران کے خلاف تعزیری اقدام کے طور پر ایرانی شہریوں کے جرمنی میں داخلے پر پابندیاں عائد کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا ہے۔
کسی طیارے کے لینڈنگ گیئر سے انسانی لاش ملنے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس قبل بھی اس نوعیت کے حادثات رپورٹ کیے جا چکے ہیں۔ ان واقعات میں معاشی طور پر کمزور اور جنگ زدہ ملکوں کے باشندے امریکہ اور یورپی ممالک میں پناہ کے متلاشی ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس بھی اس طرح کے الگ الگ دو واقعات منظر عام پر آئے تھے۔
اگست سن دو ہزار اکیس میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد عام افغان شہریوں کی بڑی تعداد کابل کے ہوائی اڈے پر کئی دن تک ہجوم کی شکل میں موجود رہی اور وہاں سے انخلا کے لیے سر توڑ کوششیں کرتے رہے۔ اس دوران ایسے مناظر بھی دیکھنے میں آئے جہاں افغان شہری امریکی فوجی جہازوں کے اڑان بھرنے سے پہلے ان کے ساتھ رن وے پر دوڑتے تھے اور کچھ افغانوں نے ان طیاروں کے ساتھ لٹکنے کی کوششوں کے دوران اپنی جانیں کھو دی تھیں۔
اسی دوران امریکی ایئر فورس کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا تھا، جس کے مطابق کابل ایئر پورٹ سے قطری دارالحکومت دوحہ لینڈ کرنے والے ایک امریکی فوجی طیارے کے لینڈنگ گیئر سے ایک نوجوان افغان شہری کی لاش ملی تھی۔ اس طرح گزشتہ برس نائیجریا کے شہر لاگوس سے ایمسٹر ڈیم آنے والی پرواز کے لینڈنگ گیئر سے بھی ایک نائجیرین نوجوان کی لاش ملی تھی۔
ش ر ⁄ ع ا (ڈی پی اے)
کابل سے انخلا کا مشن، تصویروں میں
افغان طالبان کے پندرہ اگست کو ملکی دارالحکومت پر قبضے کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد افراد کو کابل سے نکالا جا چکا ہے۔ لیکن اس مشن کے بعد بھی لاکھوں افغان شہری طالبان کے رحم و کرم پر ہیں۔
تصویر: U.S. Air Force/Getty Images
سفارتی عملے کا امریکی ہیلی کاپٹروں کے ذریعے انخلا
جیسے ہی افغان طالبان نے کابل کا محاصرہ کیا، شہر میں واقع امریکی سفارت خانے سے اس کا عملہ نکال لیا گیا۔ یہ تصویر پندرہ اگست کی ہے، جب امریکی چینوک ہیلی کاپٹر ملکی سفارتی عملے کے انخلا کے لیے روانہ کیے گئے۔ جرمنی نے بھی انخلا کے اس مشن کے لیے ہیلی کاپٹر اور چھوٹے طیارے روانہ کیے تھے۔
تصویر: Wakil Kohsar/AFP/Getty Images
کابل ایئر پورٹ تک پہنچنے کی دوڑ
سولہ اگست کو کابل کے حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر مقامی لوگوں کا جم غفیر دیکھا گیا۔ یہ لوگ طالبان کے خوف سے ملک سے فرار ہونے کی کوشش میں ایئر پورٹ کی حدود میں داخل ہونا چاہتے تھے۔ ان افغان باشندوں کا کہنا تھا کہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ان کو جان و مال کے خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
تصویر: Reuters
کابل سے نکلنے کے لیے بے چین
یہ ڈرامائی منظر بھی کابل ایئر پورٹ کا ہے، جہاں لوگوں کا ہجوم ایک امریکی فوجی طیارے میں سوار ہونے کی ناکام کوششوں میں ہے۔ جہاز میں داخل ہونا تو ممکن نہیں تھا، لیکن متعدد افراد اس جہاز کے لینڈنگ گیئر اور پہیوں سے لپٹ گئے کہ شاید اسی طرح وہ کابل سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں۔ جب جہاز اڑا تو ان میں سے کئی افراد زمین گر کر ہلاک بھی ہو گئے۔
تصویر: AP Photo/picture alliance
دو دہائیوں بعد طالبان کی واپسی
افغانستان میں امریکی اتحادی فوجی مشن کے خاتمے سے قبل ہی افغان طالبان نے ملک بھر کا کنٹرول سنبھال لیا۔ اب کابل کی سڑکوں پر بھی یہ جنگجو سکیورٹی کے پیش نظر گشت کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ لوگوں کو خوف ہے طالبان اپنے وعدوں کے برخلاف انتقامی کارروائیاں کریں گے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
تحفظ کی تمنا
افغان لوگوں کے ہاتھ جو بھی لگا، انہوں نے سمیٹ کر کابل سے فرار کی کوشش شروع کر دی۔ ان کا رخ ایئر پورٹ کی طرف ہی تھا۔ جرمن ایئر فورس کا یہ طیارہ افغان باشندوں کو لے کر ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پہنچا۔ انخلا کے مشن میں شریک زیادہ تر فوجی طیارے لوگوں کو لے کر تاشقند، دوحہ یا اسلام آباد اترے، جہاں سے ان افراد کو مسافر پروازوں کے ذریعے ان کی حتمی منزلوں تک لے جایا جائے گا۔
تصویر: Marc Tessensohn/Bundeswehr/Reuters
مدد کی کوشش
جرمنی میں امریکا کی رمشٹائن ایئر بیس پر پہنچنے والے افغان مہاجرین کو بنیادی اشیائے ضرورت کے اشد ضرورت تھی۔ اس ایئر بیس نے ایسے ہزاروں افغان شہریوں کو شیلٹر فراہم کیا جبکہ خوراک اور دیگر بنیادی ایشا بھی۔ لیکن ان کی آباد کاری کا معاملہ آسان نہیں ہو گا۔
تصویر: Airman Edgar Grimaldo/AP/picture alliance
طالبان کے دور میں زندگی
طالبان کی عملداری میں افغانستان کو چلانا آسان نہیں ہو گا۔ اب تک طالبان حکومت سازی کے کسی فارمولے کو طے نہیں کر سکے جبکہ اس شورش زدہ ملک کے لیے عالمی امداد بھی روک دی گئی ہے۔ اس ملک میں بے گھر پانچ ملین افراد کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے آئی او ایم نے چوبیس ملین ڈالر کی ہنگامی مدد کی اپیل کی ہے تاکہ ابتر صورت حال سے نمٹا جا سکے۔
تصویر: Hoshang Hashimi/AFP
محفوظ راستہ
چوبیس اگست کو لی گئی اس تصویر میں ایک امریکی فوجی ایک بچے کو حامد کرزئی ایئر پورٹ کی طرف لے جا رہا ہے تاکہ اس کو اس کے کنبے سے ملایا جا سکے۔ اکتیس اگست کو امریکی افواج کے انخلا کی تکمیل کے بعد یہ صورتحال زیادہ پیچیدہ ہو جائے گی۔
تصویر: Sgt. Samuel Ruiz/U.S. Marine Corps/Reuters
ہزاروں پیچھے رہ جائیں گے
اگرچہ افغان عوام کے انخلا کا یہ آپریشن ختم ہو چکا ہے لیکن پھر بھی ہزاروں افراد کابل ایئر پورٹ کے گرد جمع ہیں۔ دہشت گردانہ حملوں کے باوجود یہ لوگ ہوائی اڈے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتے۔ ایسی خفیہ رپورٹیں ہیں کہ کابل کے ہوائی اڈے کو مزید حملوں کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
تصویر: REUTERS
خوش قسمت لیکن مایوس
افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جانے والے افراد کی کیفیات ملی جلی ہیں۔ وہ خود کو خوش قسمت بھی تصور کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی ایک مایوسی کا شکار بھی ہیں۔ کیونکہ وہ اپنے پیچھے کئی ملین ایسے ہم وطنوں کو چھوڑ کر اپنے ملک سے فرار ہوئے، جن کے حکمران طالبان ہیں۔
تصویر: Anna Moneymaker/AFP/Getty Images
اکتیس تاریخ آخری دن
افغانستان سے انخلا کے مشن کا آخری دن اکتیس اگست ہے۔ انخلا کے اس مشن میں شریک امریکی فوجی بھی منگل اکتیس اگست کو افغانستان سے نکل جائیں گے۔ جرمنی سمیت کئی دیگر اتحادی ممالک کی ریسکیو ٹیمیں گزشتہ ہفتے ہی اپنے مشن مکمل کر چکی ہیں۔