1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران سے فرار ہونے والا فنکار منقسم قبرص کی سرحد پر پھنس گیا

29 ستمبر 2020

تہران حکومت کا ناقد موسیقار امید طوطیان چار سال قبل ترکی جانے کے لیے گھر سے نکلا تھا۔ گرفتاری سے بچنے کے لیے وطن سے فرار ہونے والا یہ فنکار قبرص کے جزیرے پر نسلی سیاست اور کورونا کے باعث لگی پابندیوں کا اسیر ہو چکا ہے۔

Zypern Nikosia Pufferzone | iranischer Flüchtling Omid Tootian
تصویر: Yiannis Kourtoglou/Reuters

اسے معلوم تھا کہ اس کا یہ سفر پُرخطر ہے کیونکہ اس کا دعویٰ ہے کہ اس سے پہلے بھی اس جیسے کئی ایرانی منحرف شہریوں نے ترکی کا رخ کیا تھا اور لاپتہ ہو گئے تھے۔ امید طوطیان تاہم رواں برس ستمبر کے وسط سے نسلی بنیادوں پر منقسم جزیرے قبرص کے ایک بفر زون میں ایک چھوٹے سے خیمے میں زندگی بسر کر رہا ہے۔

طوطیان کا سفر

طوطیان دراصل ترکی پہنچنا چاہتا تھا۔ وہ ایران سے فرار ہو کر شمالی قبرص پہنچا۔ یہ علاقہ 1974ء میں ہونے والی جنگ کے بعد قبرص کی تقسیم کے نتیجے میں ایک بفر زون پٹی کی حیثیت

 اختیار کر گیا تھا جو اقوام متحدہ کے کنٹرول میں ہے۔ قبرص کے اس حصے کو صرف انقرہ حکومت نے تسلیم کیا ہے۔ وہاں سے اس کا پلان یہ تھا کہ وہ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ جنوب کی طرف 'یونانی قبرص‘ پہنچ جائے گا۔ یہیں پر اس کی ساری منصوبہ بندی ناکام ہو گئی۔ 45 سالہ طوطیان نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا، ''پولیس نے مجھے اندر نہیں آنے دیا۔‘‘ امید طوطیان نے کہا کہ یونانی قبرص کی طرف پولیس افسروں نے کووڈ 19 کی وبائی بیماری کی وجہ سے داخلے  پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ وہ کہتا ہے، ''اب میں یہاں پھنس کر رہ گیا ہوں۔‘‘

طوطیان نے نیکوسیا کے بفرزون پر اپنے لیے یہ خیمہ لگالیا ہے۔تصویر: Mario Goldmann/AFP

طوطیان کا خیمہ

جس علاقے میں امید طوطیان نے اپنا خیمہ لگا رکھا ہے، اس کی تفصیلات بتاتے ہوئے اس نے کہا، ''یہ 500 میٹر طویل ایک پٹی ہے، جو وسطی نکوسیا کے اطراف مخالف فریقوں کو تقسیم رکھنے کے لیے بنائی گئی ہے، یہ قبرص کا دارالحکومت ہے جو نسلی بنیادوں پر منقسم ہے اور یہ 180 کلو میٹر طویل بفر زون مشرق سے مغرب کی طرف جانے والی راہداری ہے۔

طوطیان نے اپنا چھوٹا سا خیمہ جنگ کے زمانے میں ترک کر دیے گئے ایک گھر کے باغیچے میں لگا رکھا ہے۔ اس مخدوش الحال مکان کی کھڑکیاں، شٹر سب ٹوٹے ہوئے ہیں، رنگ اترا ہوا، کھڑکیوں کو بند رکھنے کے لیے مٹی کے تھیلے ایک دوسرے کے اوپر رکھے گئے ہیں۔ اس گھر کے پڑوس میں ایک عمارت ہے، جس کے بارے میں امن دستوں کا خیال ہے کہ یہ اس پورے علاقے میں کسی بھی طرح کی سرگرمی کی واحد علامت ہے۔

اس علاقے کا نام Ledra Palace کے نام پر رکھا گیا ہے جو سڑک کے اُس پار ایک ہوٹل ہے جہاں اقوام متحدہ کے امن دستوں میں شامل برطانوی فوجی مقیم ہیں۔

29 سال تک بند رہنے کے بعد 2003ء میں پہلی بار منقسم قبرص کے ترک اور یونانی قبرصی نسل کے باشندوں کے لیے یہ علاقہ بطور راہداری کھول دیا گیا تھا۔ رواں برس فروری میں کورونا وائرس کی وبا کے سبب اسے دوبارہ بند کر دیا گیا۔ اب بہت ہی کم افراد اس راہداری کو استعمال کرتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر مقامی باشندے ہوتے ہیں۔

طوطیان نے یونانی قبرص کے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اُسے سرحد کے اندر داخل ہونے کی اجازت دیں۔تصویر: Yiannis Kourtoglou/Reuters

امید طوطیان ترک اور یونانی قبرص کے بیچ

امید طوطیان اپنا کورونا ٹیسٹ کروا چکا ہے اور اس کا نتیجہ منفی آیا، وہ یہ ثابت کر سکتا ہے کہ وہ کورونا وائرس کا شکار نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یونانی قبرص کی سرحد پر اسے مسلسل رکاوٹوں کا سامنا ہے۔ اس نے چار پانچ مرتبہ یونانی قبرص میں داخلے کی کوشش کی، مگر اسے ہر بار روک دیا گیا۔ وہ کہتا ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر واپس ترک قبرصی جمہوریہ نہیں جائے گا کیونکہ اسے ڈر ہے کہ وہاں سے اسے ملک بدر کر کے پہلے ترکی اور پھر ترکی سے واپس ایران بھیج دیا جائے گا۔ اس کا کہنا ہے، ''میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا۔ یا تو میں یہیں اس خیمے میں رہوں گا یا وہ مجھے یونانی قبرص جانے دیں،‘‘

قبرصی وزارت داخلہ نے، جو سیاسی پناہ کے امور کی ذمہ دار بھی ہے، اس بارے میں روئٹرز کی طرف سے ردعمل کی درخواست کے جواب میں مسلسل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین یو این ایچ سی آر نے بھی قبرصی حکام سے رابطہ کیا ہے، اور ان سے کہا ہے کہ وہ طوطیان کو بین الاقوامی تحفظ کے تک رسائی کی اجازت دیں کیونکہ ایسا کرنا قبرص کے قومی اور یورپی قانون کے مطابق ہو گا۔

ک م / م م (روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں