ایران سے معاہدہ: امریکا اسرائیلی، سعودی غصہ مول لینے پر تیار
11 نومبر 2013واشنگٹن سے خبر رساں ادارے اے ایف پی نے لکھا ہے کہ جنیوا مذاکرات کے دوران تہران حکومت پر یہ دباؤ انتہائی شدید رہا کہ وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ ایٹمی تنازعے میں جلد از جلد کوئی معاہدہ طے کرے۔ اس دوران واشنگٹن حکومت اس وجہ سے بڑی بے صبری سے کوششیں کرتی رہی کہ ایران کی مذاکرات پر آمادگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کسی تصفیے تک پہنچ جائے تاکہ مشرق وسطیٰ میں مستقبل کے کسی تنازعے سے بچا جا سکے۔
جنیوا میں ایران اور چھ عالمی طاقتوں امریکا، چین، روس، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے نمائندوں کے مابین تین روز تک جاری رہنے والے بہت مشکل مذاکرات جمعرات کو شروع ہوئے تھے اور کل اتوار کو علی الصبح بغیر کسی معاہدے کے ختم ہو گئے تھے۔
فریقین کو امید تھی کہ آخرکار کوئی نہ کوئی ایسا معاہدہ طے پا سکتا تھا جس کے تحت ایران اپنے ایٹمی پروگرام میں کمی پر آمادہ ہو جاتا اور اس کے جواب میں ایران کے خلاف بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی کی جا سکتی۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
فلسطین کے بارے میں امریکی ٹاسک فورس نامی ادارے کے سینئر ماہر حسین آئیبِش کہتے ہیں، ’’شاید امریکا بہت تیزی سے بہت آگے تک جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن امریکا نے ایسا ایران کی طرف سے جوش و خروش کے رد عمل میں کیا۔‘‘
ایران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ لیکن مغربی دنیا کو شبہ ہے کہ تہران اس ایٹمی پروگرام کی آڑ میں جوہری ہتھیار تیار کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ دونوں کے درمیان گزشتہ دس سال سے مذاکرات میں جمود پایا جاتا تھا۔
اب اس بات چیت کو ایک نئی تحریک ملی ہے۔ حسین آئیبِش کہتے ہیں کہ اس مرحلے پر ایران اور عالمی طاقتوِں کے مابین معاہدہ اس لیے ممکن نظر آتا ہے کہ دونوں میں ’’یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ اس مسئلے پر کسی بڑے تصادم سے بچا جائے۔‘‘
RAND کارپوریشن نامی تھنک ٹینک کے انٹرنیشنل پالیسی کے سینئر تجزیہ کار علی رضا نادر اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے کہ امریکا ایران کے ساتھ کسی بھی قیمت پر کوئی معاہدہ طے کرنے کے لیے بہت جلد بازی کر رہا ہے۔
وہ اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کرتے کہ امریکا اور ایران کے مابین تو 1980 سےکوئی سفارتی تعلقات موجود ہی نہیں ہیں۔ علی رضا نادر کہتے ہیں کہ ستمبر کے آخر میں ایرانی صدر روحانی اور امریکی صدر اوباما کے درمیان ٹیلی فون کال اور اس دوران کی گئی گفتگو کی اہمیت تاریخی ہے۔ لیکن واشنگٹن اور تہران کے مابین تعلقات میں کسی بھی بہتری کو گزشتہ کئی عشروں کی بداعتمادی اور رقابت کے پس منظر میں دیکھا جانا چاہیے۔
نادر کے بقول اوباما انتظامیہ نے ایران کے ساتھ اس تنازعے کے حل کے لیے ہمیشہ سفارتی حل کو ترجیح دی ہے۔ امریکا کی RAND کارپوریشن کے اس ماہر تجزیہ کار کے مطابق پچھلے چند مہینوں کے دوران امریکا کی پوزیشن تبدیل نہیں ہوئی۔
اس کے برعکس جو کچھ دیکھنے میں آیا ہے وہ ایران کی مذاکرات پر آمادگی ہے۔ اسی دوران امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی واشنگٹن کے خلاف ان الزامات کا دفاع کیا ہے کہ وہ جنیوا میں ایران کے ساتھ کسی بھی قیمت پر معاہدہ طے کر لینے کی کوشش کر رہا تھا۔
کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور سعودی عرب واشنگٹن کے تہران کے ساتھ کسی بھی معاہدے کے سخت خلاف ہیں۔ نیشنل ایرانی امریکی کونسل کی صدر ٹریِٹا پارسی کہتی ہیں کہ اسرائیل اور سعودی عرب عوامی سطح پر بھی یہ اشارے دے چکے ہیں کہ ان کی خواہش ہے کہ امریکا ایران کے ساتھ جنگ کرے۔
پارسی کے مطابق، ’’ اگر کوئی معاہدہ ہو گیا تو جنگ نہیں ہو گی اور اسرائیل اور سعودی عرب اسی بات پر پریشان ہیں۔‘‘ علی رضا نادر کے مطابق اسرائیل اور سعودی عرب کو بے چینی اس لیے ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی ایرانی امریکی معاہدہ ان کے طویل المدتی اسٹریٹیجک مفادات کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ لیکن امریکا اس بارے میں اسرائیل اور سعودی عرب کو ناراض کر دینے کا خطرہ مول لینے پر اب بھی تیار ہے۔