ٹرمپ انتظامیہ نے اعلیٰ ایرانی قیادت کے خلاف جارحانہ مہم میں شدت پیدا کر دی ہے۔ یہ مہم آن لائن ہے اور اس میں ایرانی عوام کو شریک ہونے کی درخواست بھی کی گئی ہے۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ایران کے اہم حکومتی رہنماؤں کے خلاف جارحانہ مہم شروع کر دی ہے۔ اس مناسبت سے آن لائن ایسے مضامین اور بیانات جاری کرنے کا سلسلہ شروع ہے اور ان کا مقصد ایران میں پائی جانے والی عوامی بےچینی کو مزید بڑھانا خیال کیا گیا ہے۔
خبر رسساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس آن لائن مہم کا مقصد تہران حکومت پر دباؤ بھی بڑھانا ہے تا کہ وہ اپنے جوہری پروگرام سے بھی دستبردار ہو جائے۔ اس کے علاوہ خطے میں بھی وہ دیگر ملکوں میں مداخلت کی پالیسی سے اجتناب کرے۔ ایسے الزامات سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستیں بھی تہران پر عائد کرتی ہیں۔
امریکی حکومت کے موجودہ اور سابق اہلکاروں نے بتایا ہے کہ ایران مخالف مہم کو موجودہ وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور قومی سلامتی کے مشیو جان بولٹن کی حمایت حاصل ہے۔ یہ مہم رواں برس آٹھ مئی سے زیادہ شدت اختیار کر چکی ہے، جب اسی تاریخ پر امریکی صدر نے ایرانی جوہری ڈیل سے علیحدگی اختیار کی تھی۔
اس امریکی مہم کے تحت وزارت خارجہ نے فارسی زبان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ شروع کر رکھا ہے اور یہ ایک اور ویب سائٹ ’’شیئرامریکا‘‘ کے ساتھ منسلک بھی ہے۔ یہ ٹوئٹر اکاؤنٹ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ ایک پلیٹ فارم ہے اور اس پر جمہوریت اور جمہوری اقدار کو زیربحث لایا جانا ہے لیکن اس پر تہران حکومت کے خلاف کئی پوسٹس جاری کی جا چکی ہیں۔
اس ویب سائٹ پر جاری ہونے والے کئی مضامین میں ’انسدادِ پُرتشدد انتہاپسندی‘ کا موضوع بھی شامل کیا گیا ہے۔ پومپیو بھی اسی مہم کے تناظر میں ایرانی عوام اور دوسرے ممالک میں مقیم ایرانیوں سے اپیل کر چکے ہیں کہ وہ ایران کی سخت گیر حکومت کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے کے سلسلے کو تقویت دیتے رہیں۔
اس مناسبت سے وائٹ ہاؤس نے کسی قسم کا تبصرہ اور اس مہم میں وزیر خارجہ پومپیو کے کردار کے حوالے سے بھی کوئی بات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے بھی ردعمل ظاہر کرنے سے گریز کیا ہے۔
دوسری جانب ایران کے ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار نے نام مخفی رکھتے ہوئے واضح کیا کہ یہ امریکی مہم بھی ناکامی پر ختم ہو گی۔ امریکا اور ایران کے درمیان تعلقات سن 1979 میں اسلامی انقلاب کے تناظر میں بننے والی ایرانی حکومت کے بعد سے نہایت کشیدہ ہیں۔
سب سے زیادہ سزائے موت کن ممالک میں؟
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2017 کے دوران عالمی سطح پر قریب ایک ہزار افراد کو سنائی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا۔ سزائے موت کے فیصلوں اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے کون سے ملک سرفہرست رہے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۱۔ چین
چین میں سزائے موت سے متعلق اعداد و شمار ریاستی سطح پر راز میں رکھے جاتے ہیں۔ تاہم ایمنسٹی کے مطابق سن 2017 میں بھی چین میں ہزاروں افراد کی موت کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
۲۔ ایران
ایران میں ہر برس سینکڑوں افراد کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے، جن میں سے زیادہ تر افراد قتل یا منشیات فروشی کے مجرم ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس ایران میں پانچ سو سے زائد افراد سزائے موت کے بعد جان سے گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل تاہم یہ نہیں جان پائی کہ اس برس کتنے ایرانیوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/epa/S. Lecocq
۳۔ سعودی عرب
ایران کے حریف ملک سعودی عرب اس حوالے سے تیسرے نمبر پر رہا۔ سن 2017 کے دوران سعودی عرب نے 146 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا۔
تصویر: Nureldine/AFP/Getty Images
۴۔ عراق
چوتھے نمبر پر مشرق وسطیٰ ہی کا ملک عراق رہا جہاں گزشتہ برس سوا سو سے زائد افراد کو موت کی سزا دے دی گئی۔ عراق میں ایسے زیادہ تر افراد کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت موت کی سزا دی گئی تھی۔ ان کے علاوہ 65 افراد کو عدالتوں نے موت کی سزا بھی سنائی، جن پر سال کے اختتام تک عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
۵۔ پاکستان
پاکستان نے گزشتہ برس ساٹھ سے زائد افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 31 فیصد کم ہے۔ سن 2017 میں پاکستانی عدالتوں نے دو سو سے زائد افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ سات ہزار سے زائد افراد کے خلاف ایسے مقدمات عدالتوں میں چل رہے تھے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۶۔ مصر
مصر میں اس عرصے میں پینتیس سے زیادہ افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: Reuters
۷ صومالیہ
ایمنسٹی کے مطابق صومالیہ میں گزشتہ برس عدالتوں کی جانب سے سنائے گئے سزائے موت کے فیصلوں میں تو کمی آئی لیکن اس کے ساتھ سزائے موت پر عمل درآمد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ سن 2017 میں مجموعی طور پر 24 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/epa/J. Jalali
۸۔ امریکا
آٹھویں نمبر پر امریکا رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ ریاستوں میں 23 افراد کو سزائے موت دے دی گئی، جب کہ پندرہ ریاستوں میں عدالتوں نے 41 افراد کو سزائے موت دینے کے فیصلے سنائے۔ امریکا میں اس دوران سزائے موت کے زیر سماعت مقدموں کی تعداد ستائیس سو سے زائد رہی۔
تصویر: imago/blickwinkel
۹۔ اردن
مشرق وسطیٰ ہی کے ایک اور ملک اردن نے بھی گزشتہ برس پندرہ افراد کی سزائے موت کے فیصلوں پر عمل درآمد کر دیا۔ اس دوران مزید دس افراد کو موت کی سزا سنائی گئی جب کہ دس سے زائد افراد کو ایسے مقدموں کا سامنا رہا، جن میں ممکنہ طور پر سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
تصویر: vkara - Fotolia.com
۱۰۔ سنگاپور
دسویں نمبر پر سنگاپور رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ افراد موت کی سزا کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سن 2017 میں سنگاپور کی عدالتوں نے پندرہ افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ اس دوران ایسے چالیس سے زائد مقدمے عدالتوں میں زیر سماعت رہے۔