1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران: طیارہ گرانے کے معاملے میں افسران کے خلاف فرد جرم عائد

7 اپریل 2021

ایران نے یوکرائن کے ایک مسافر طیارے کو غلطی سے مار گرانے کے سلسلے میں دس فوجی افسران کے خلاف فرد جرم عائد کر دی ہے۔

Iran | Gedenken an Abschuss von Passagierflugzeug | Flug 752
تصویر: Morteza Nikoubazl/NurPhoto/picture alliance

ایران میں چھ اپریل منگل کے روز استغاثہ نے بتایا کہ ایک فوجی عدالت نے گزشتہ برس جنوری میں یوکرائن کے ایک مسافر طیارے کو غلطی سے مار گرانے کے سلسلے میں دس افسران کے خلاف فرد جرم عائد کر دی ہے۔

ایران میں پاسدارن انقلاب سے وابستہ محافظوں نے یوکرائن انٹرنیشنل ایئر لائن کے ایک مسافر طیارے کو تہران سے پرواز بھرنے کے فوری بعد غلطی سے مار گرایا تھا۔ اس واقعے میں عملے سمیت جہاز پر سوار 176 مسافر ہلاک ہو گئے تھے۔

ایران نے واقعے کے فوری بعد اس کی ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا تھا تاہم بعد میں یہ بات تسلیم کی تھی کہ اس کی فوج کی جانب سے ایک ''بہت بڑی غلطی سرزد ہو گئی ہے۔''

امریکا کے ساتھ کشیدگی کے وقت طیارہ مار گرانے کا واقعہ

ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی 'آئی ایس این اے' (اسنا) نے تہران صوبے کے مستغیث غلام عباس طورکی کے حوالے سے لکھا ہے، ''یوکرائن کے طیارہ حادثے میں ملوث 10 افسران کے خلاف فرد جرم عائد کردی گئی ہے... اور باقی عدالت میں ضروری فیصلے کیے جائیں گے۔''

اس حادثے میں ہلاک ہونے والے بیشتر افراد کا تعلق گرچہ ایران اور یوکرائن سے تھا تاہم کینیڈا، افغانستان، برطانیہ اور سویڈین کے کچھ شہری بھی اس میں سوار تھے جو جل کر خاک ہو گئے۔

بعد میں تہران نے اس معاملے میں اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک ایسے وقت جب وہ کافی ہائی الرٹ کی صورت حال میں تھے، اس کے فورسز کی جانب سے ''تباہ کن غلطی سرزد ہوئی۔''

اس سے چند روز قبل ہی ایران کے فوجی جنرل قاسم سلمانی کو امریکا نے بغداد میں ایک ڈرون حملے میں ہلاک کر دیا تھا اور اس کے چند گھنٹے بعد ہی ایران نے بھی جوابی کارروائی کے تحت عراق میں امریکی تنصیاب کو نشانہ بنایا تھا جس کی وجہ سے حالات کافی کشیدہ تھے۔ 

تہران اسے انسانی خطا قرار دیتا ہے

 طیارہ حادثے سے متعلق ایران نے گزشتہ ماہ 285 صفحات پر مشتمل جو رپورٹ جاری کی تھی اس میں اس حادثے کے لیے انسانی غلطی کو سبب قرار دیا گیا ہے اور ہر ایک متاثرہ شخص کے لواحقین کو ڈیڑھ لاکھ ڈالر کی رقم بطور معاوضہ دینے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

ایرانی صدر بارہا یہ بات بھی کہتے رہے ہیں کہ جو افراد بھی اس کے لیے ذمہ دار ہیں اس کے لیے ان کی جوابدہی طے کی جائے گی، یعنی ا ن کے خلاف عدالتی کارروائی ہوگی۔ حالانکہ ایرانی قیادت نے ابتدا میں اس حادثے کی ذمہ داری لینے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر اس کے رد عمل میں بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومت ضرور کچھ چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔

ص ز/ ج ا  (اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز) 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں