ایران: مظاہروں میں متعدد ہلاکتیں، انٹرنیٹ پر پابندی عائد
22 ستمبر 2022
بائیس سالہ امینی کی ہلاکت کے بعد ایران میں احتجاجی مظاہرے زور پکڑتے جا رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ بند کر دیا گیا ہے جبکہ ملک گیر مظاہروں میں اب تک 17 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اشتہار
ایرانی پولیس کی حراست میں ہلاک ہونے والی 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف ایران بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ ایرانی حکام کے مطابق ملک میں جاری احتجاجی مظاہروں میں ایک پولیس اہلکار سمیت 17 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ایران میں شروع ہونے والے ان مظاہروں کا مرکز کرد آبادی والے شمال مغربی علاقے ہیں تاہم اب ملک کے دیگر کم از کم 50 شہروں اور قصبوں میں بھی احتجاج جاری ہے۔ یہ ایران میں 2019ء میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر ہونے والے مظاہروں کے بعد سب سے بڑے احتجاجی مظاہرے ہیں۔
ایران میں احتجاجی مظاہروں کی موبائل ویڈیو
01:41
کردوں کے حقوق کے لیے سرگرم گروہ ہنگاؤ کے مطابق ان مظاہروں میں اب تک ایک درجن سے زائد افراد مارے گئے ہیں تاہم ملکی حکام نے اس بات کی سختی سے تردید کی ہے اور یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ مرنے والوں کو مسلح مظاہرین کی جانب سے ہی گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا ہے۔
'انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن آبزرویٹری نیٹ بلاکس‘ کے مطابق ایرانی حکام نے ملک بھر میں انٹرنیٹ پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔
ان مظاہروں میں ہلاکتوں کی تعداد پندرہ سو تک پہنچ گئی تھی۔ ایرانی عوام اور نیٹ بلاکس کے مطابق ملک میں بڑے پیمانے پر استعمال ہونے والی سوشل میڈیا سائٹ انسٹاگرام کو بھی بندش کا سامنا ہے اور حکومت کی جانب سے کچھ موبائل فون نیٹ ورکس بھی بند کر دیے ہیں۔ ہنگاؤ کے مطابق ملک کے کردستان صوبے میں انٹرنیٹ اس لیے بند کیا گیا ہے تاکہ ملک میں جاری احتجاج کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر نا کی جا سکیں۔
امینی کی موت کے بعد اس اسلامی جمہوریہ میں خواتین شدید غم و غصے میں ہیں۔ مظاہروں میں خواتین کی جانب سے سر عام اسکارف جلائے جا رہے ہیں اور وہ بطور احتجاج سڑکوں پر کھڑے ہوکر اپنے بال خود کاٹ رہی ہیں۔ امینی کے والد کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی کی موت تشدد کے بعد کوما میں جانے کے باعث ہوئی ہے تاہم پولیس یہ دعوی کر رہی ہے کہ وہ دل کا دورہ پڑنے کے باعث ہلاک ہوئیں۔
ایران میں خامنہ ای مخالف مظاہرے
ایرانی حکومت کی جانب سے یوکرائنی ہوائی جہاز کو غلطی سے مار گرانے کو تسلیم کرنے پر عوام نے اپنی حکومت کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے دارالحکومت ایران سمیت کئی دوسرے شہروں میں کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NurPhoto/M. Nikoubaz
تہران میں مظاہرے
ایرانی دارالحکومت تہران میں سینکڑوں افراد حکومت مخالف مظاہروں میں شریک رہے۔ یہ مظاہرین ایرانی حکومت کے خلاف زور دار نعرے بازی کرتے رہے۔ ان مظاہرین کو بعد میں ایرانی پولیس نے منتشر کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
امیر کبیر یونیورسٹی
تہران کی دانش گاہ صنعتی امیر کبیر (Amirkabir University of Technology) ماضی میں تہران پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کہلاتی تھی۔ گیارہ جنوری سن 2020 کو ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے اس یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ کے سامنے کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/R. Fouladi
ایرانی مظاہرین کا بڑا مطالبہ
یونیورسٹی طلبہ کا سب سے اہم مطالبہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی دستبرداری کا تھا۔ ان مظاہرین نے مقتول جنرل قاسم سلیمانی کی تصاویر کو پھاڑا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ مظاہرے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی جاری کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
مظاہروں کا نیا سلسلہ
گیارہ جنوری کو مظاہرے تہران کے علاوہ شیراز، اصفہان، حمدان اور ارومیہ میں بھی ہوئے۔ امکان کم ہے کہ ان مظاہروں میں تسلسل رہے کیونکہ پندرہ نومبر سن 2019 کے مظاہروں کو ایرانی حکومت نے شدید انداز میں کچل دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
برطانوی سفیر کی تہران میں گرفتاری و رہائی
ایرانی نیوز ایجنسی مہر کے مطابق سفیر کی گرفتاری مظاہروں میں مبینہ شرکت کا نتیجہ تھی۔ ایرانی دارالحکومت تہران میں متعین برطانوی سفیر راب میک ایئر نے کہا ہے کہ وہ یونیورسٹی کے مظاہرے میں قطعاً شریک نہیں تھے۔ سفیر کے مطابق وہ یونیورسٹی کے باہر یوکرائنی مسافروں کے لیے ہونے والے دعائیہ تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے۔
تصویر: gov.uk
یوکرائنی طیارے کے مسافروں کی یاد
جس مسافر طیارے کو غلطی سے مار گرایا گیا تھا، اُس میں امیر کبیر یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ بھی سوار تھے۔ یونیورسٹی کے طلبہ نے اپنے مظاہرے کے دوران اُن کی ناگہانی موت پر دکھ کا اظہار بھی کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
سابق طلبہ کی یاد میں شمعیں جلائی گئیں
تہران کی امیرکبیر یونیورسٹی کے طلبہ نے یوکرائنی ہوائی جہاز میں مرنے والے سابقہ طلبہ اور دیگر ہلاک ہونے والے ایرانی مسافروں کی یاد میں یونیورسٹی کے اندر شمعیں جلائیں۔ یوکرائنی مسافر بردار طیارے پر نوے سے زائد ایرانی مسافر سوار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
مہدی کروبی کا مطالبہ
ایران کے اہم اپوزیشن رہنما مہدی کروبی نے بھی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خامنہ ای یوکرائنی کمرشل ہوائی جہاز کی تباہی کے معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کروبی ایران میں اصلاحات پسند گرین موومنٹ کے رہنما ہیں۔
تصویر: SahamNews
ڈونلڈ ٹرمپ اور ایرانی مظاہرین
ڈونلڈ ٹرمپ نے تہران حکومت خبردار کیا ہے کہ وہ ان مظاہرین پر ظلم و جبر کرنے سے گریز کرے۔ ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ وہ بہادر ایرانی مظاہرین کے ساتھ ہیں جو کئی برسوں سے مصائب اور تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق ایرانی حکومت پرامن مظاہرین کا قتل عام کر سکتی ہے مگر وہ یاد رکھے کہ دنیا کی اس پر نظر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
پندرہ نومبر سن 2019 کے مظاہرے
گزشتہ برس نومبر میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کئی بڑے ایرانی شہروں میں ہونے والے مظاہروں کو سخت حکومتی کریک ڈاؤن کا سامنا رہا تھا۔ یہ ایران میں چالیس سالہ اسلامی انقلاب کی تاریخ کے سب سے شدید مظاہرے تھے۔ بعض ذرائع اُن مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پندرہ سو کے لگ بھگ بیان کرتے ہیں۔ تصویر میں استعمال کیے جانے والے کارتوس دکھائے گئے ہیں۔
تاہم ایک سماجی کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا، ''ہمیں خدشہ ہے کہ جیسے ہی حکومت انٹرنیٹ مکمل طور پر بند کر دے گی، دنیا ایران کے بارے میں بھول جائے گی، دوبارہ سب کچھ ویسے ہی ہو جائے گا، جیسا پہلے چل رہا ہے۔‘‘