1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران معاملے پر اسرائیل کا امریکا  کے ساتھ رہنے کا عہد

12 اپریل 2021

امریکا نے حال ہی میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپسی کے لیے ایران کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کیا ہے جس سے اسرائيلی حکومت میں خوف کا ماحول ہے۔

Israel US-Verteidigungsminister Lloyd Austin und Benny Gantz
تصویر: Matty Stern/U.S. Embassy Jerusalem/dpa/picture alliance

اسرائیلی وزیر دفاع بینی گانٹز نے 11 اپریل اتوار کے روز اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات کے بعد کہا کہ ایران کے تعلق سے تمام معاملات پر اسرائیل امریکا کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ تھا ان کی نظر میں واشنگٹن اسرائیل کا پکا ساتھی ہے اور وہ اس بات کو یقینی بنائے گا کہ تہران کے ساتھ کسی بھی نئے سفارتی معاہدے سے علاقائی سلامتی سے سمجھوتہ نہ کیا جائے۔

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے پہلے دورہ اسرائیل کے موقع پر بینی گانٹز نے ان سے کہا، '' آج کا تہران بین الاقوامی سلامتی، پورے مشرق وسطی اور اسرائیلی ریاست کے لیے ایک اسٹریٹیجک خطرہ ہے۔''

امریکا نے حال ہی میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں واپسی کے لیے ایران کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ گرچہ یہ بات چیت دیگر عالمی طاقتوں کے توسط سے بالواسطہ ہے اس کے باوجود ان مساعی سے اسرائیلی حکومت میں عموماً خوف پا یا جاتا ہے۔ سابق صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے سے امریکہ کوسن 2018میں یکطرفہ طور پر الگ کر لیا تھا۔

اسرائیل وزیر دفاع بینی گانٹز کا کہنا تھا، ''اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ ایران کے ساتھ کوئی بھی نیا معاہدہ دنیا اور امریکہ کے اہم مفادات کو تحفظ فراہم کرے، ہم اپنے امریکی اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے جس سے علاقے میں ہتھیاروں کی خطرناک مسابقہ آرائی کو بھی روکا جا سکے۔''

تصویر: Matty Stern/U.S. Embassy Jerusalem/dpa/picture alliance

امریکا اور اسرائیل کے مضبوط اتحاد پر زور

امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اپنے دو روزہ دور اسرائیل کے موقع پر یہ بات کہی کہ واشنگٹن امریکا اور اسرائیل کے درمیان اتحاد کو خطے کی سکیورٹی کے لیے بہت اہم سمجھتا ہے تاہم عوامی سطح پر انہوں نے ایران کے ذکر سے گریز کیا۔

ان کا کہنا تھا کا امریکا اس بات کو یقینی بنائے کہ ''اسرائیل اور اسرائیلی عوام کے ساتھ اس کا جو مضبوط عزم''  ہے اس کے حصے کے طور پر اسرائیل کی ''فوجی لیاقت و صلاحیت کو برتری حاصل رہے۔''

انہوں نے کہا، ''ہماری ملاقات کے دوران میں نے وزیر دفاع گانٹز سے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ اسرائیل کے تئیں ہمارا عزم پوری طرح برقرار ہے اور یہ بہت مضبوط ہے۔'' 

امریکی وزیر دفاع اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے بھی ملاقات کرنے والے ہیں جو ایران کو اسرائیل کا سب سے خطرناک دشمن سمجھتے ہیں۔ ان کی حکومت ایران کے ساتھ امریکا کے جوہری معاہدے کی حامی نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ایران اپنی جوہری سرگرمیاں وقتی طور پر بند کرے گا اور بالآخر وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت حاصل کر لے گا۔ 

تہران کا موقف یہ رہا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام ہتھیاروں کے حصول کے لیے نہیں بلکہ توانائی کی ضروریات کے لیے ہے۔ امکان ہے کہ اس دورے کے دوران اسرائیل کے لیے امریکی ہتھیاروں کی سپلائی پر بھی بات چیت ہو گی۔

جوہری معاہدے سے امريکا کی دستبرداری: ايرانی کاروباری ادارے پريشان

03:01

This browser does not support the video element.

ایرانی جوہری تنصیب پر اسرائیل کا مشتبہ حملہ

ایران نے اتوار کے روز یورینیم کو تیزی سے افزودہ کرنے کے قابل نئے جدید سینٹری فیوجز کا اعلان کیا، اس کے چند گھنٹے بعد ہی اس کے زیر زمین نطنز جوہری پلانٹ کی بجلی پوری طرح سے گل ہو گئی۔ جوہری پروگرام کے ترجمان بہروز آفندی  نے تاہم سرکاری ٹی وی پر بات چيت کے دوران کہا کہ اس سے جوہری تنصیب  کو کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔  

اس واقعے کی ابتدا میں تو ایرانی حکام نے اس پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا تاہم بعد انہوں نے پلانٹ میں بچلی چلے جانے کو " جوہری انسداد دہشت گردی" سے تعبیر کیا۔

عالمی جوہری نگراں ادارے (آئی اے ای اے) میں ایرانی نمائندے علی اکبر صالحی نے ادارے سے اس طرح کے سبوتاژ کے واقعے سے نمٹنے کا مطالبہ کیا تاہم انہوں نے اس واقعے کے لیے کسی کا نام بھی نہیں لیا۔

ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق انہوں نے کہا، "اسلامی جمہوریہ ایران، اس دہشت گردانہ تحریک کے اہداف کو ناکام بنانے کے لیے، ایک طرف تو اپنی جوہری ٹیکنالوجی میں سنجیدگی سے بہتری لانے اور دوسری طرف جابرانہ پابندیوں کو ختم کرانے کے اپنے سلسلے کو جاری رکھے گا۔

سن 2010 میں نطنز کے جوہری پلانٹ میں ہی سائبر حملے سے اس کو کافی نقصان پہنچا تھا اس کے لیے میڈیا نے امریکا اور ایران پر الزام عائد کیا تھا۔

ص ز/ ج ا  (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)

ايرانی جوہری پروگرام

01:34

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں