ایرانی صدر حسن روحانی نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ تہران حکومت اپنی میزائل پروگرام کو وسعت دیتا رہے گا۔ مسلح افواج سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ ملکی دفاع پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
اشتہار
ایرانی صدر حسن روحانی نے بائیس ستمبر بروز جمعہ تہران میں ایک فوجی پریڈ سے خطاب میں کہا کہ تہران حکومت نہ صرف اپنے میزائل پروگرام کو مزید بہتر اور مؤثر بنائے گی بلکہ ساتھ ہی فضائیہ اور بحری افواج کو بھی جدید خطوط پر استوار کرنے کی کوشش جاری رہے گی۔
مسلح افواج سے خطاب میں روحانی نے امریکی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا، ’’جب بات اپنے ملک کے دفاع کی ہو گی تو تو ہمیں کسی کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہو گی۔‘‘
اس قومی فوجی پریڈ میں پاسدارانِ انقلاب نے دو ہزار کلومیٹر تک نشانہ بنانے والے ایک بیلسٹک میزائل کی نمائش بھی کی ہے۔ پریڈ میں پاسداران انقلاب کے ایئر اسپیس شعبے کے سربراہ جنرل امیر علی حاجی زادہ نے بتایا کہ اس بیلسٹک میزائل کا نام ’خرم شہر‘ رکھا گیا ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق اس پریڈ میں ایران نے اپنی عسکری طاقت کی بھروپور انداز میں نمائش کی۔
کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم؟
دنیا بھر میں اس وقت نو ممالک کے پاس قریب سولہ ہزار تین سو ایٹم بم ہیں۔ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے مطالبات کے باوجود یہ تعداد کم نہیں ہو رہی۔ دیکھتے ہیں کہ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: AP
روس
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سِپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت آٹھ ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kolesnikova
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس آج بھی 7300 ایٹم بم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 300 بتائی جاتی ہے۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 250 ایٹم بم ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 225 جوہری ہتھیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kaminski
پاکستان
پاکستان کے پاس ایک سو سے ایک سو بیس کے درمیان جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سن 1998ء میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور اسلام آباد حکومت کے مطابق اس کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
سن انیس سو اسی میں عراق کے خلاف شروع ہونے والی جنگ کی یاد میں منعقد کی جانے والی اس فوجی پریڈ میں خطاب کرتے ہوئے روحانی نے کہا کہ ملکی دفاع کو مضبوط بنانا ضروری ہے کیونکہ اسی صورت ملک کی سلامتی اور خودمختاری قائم رہ سکتی ہے۔
انہوں نے اصرار کیا کہ علاقائی سطح پر طاقت کا توازن برقرار رہنا چاہیے۔ سن انیس سو اسی میں عراق کے ساتھ شروع ہونے والی یہ جنگ آٹھ سال تک جاری رہے تھی، جس میں دونوں ممالک کو شدید نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ تب عراق کے صدر صدام حسین تھے۔
روحانی نے مزید کہا کہ عالمی طاقتوں سے سن دو ہزار پندرہ میں طے پانے والی ڈیل پر دوبارہ مذاکرات نہیں کیے جائیں گے۔ جب اس ڈیل کو حتمی شکل دی گئی تھی تو اس وقت امریکا کے صدر باراک اوباما تھے لیکن ان کے اقتدار سے سبکدوش ہونے کے بعد نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس ڈیل پر تنقید کرتے ہیں بلکہ انہوں نے اسے ’شرمندگی‘ بھی قرار دے دیا ہے۔
ناقدین کے مطابق نئی امریکی انتظامیہ اس ڈیل کو ختم بھی کر سکتی ہے۔ اگرچہ امریکی صدر اس ڈیل پر دوبارہ مذاکرات کرنے پر زور دے رہے ہیں تاہم عالمی طاقتیں اس تناظر میں ٹرمپ کے ساتھ نہیں ہیں۔