ایران میں افغان مہاجر: ’خوف، تضحیک میرے ساتھ رہے،‘ زہرہ نادر
23 جون 2020
صحافی زہرہ نادر نے تہران میں ایک افغان مہاجر کے طور پر اپنے قیام کے دوران ہونے والے تجربات یاد کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایران میں جس تعصب کا سامنا انہوں نے انیس سو نوے کی دہائی میں کیا، وہ آج بھی ختم نہیں ہوا۔
اشتہار
جب میں ایران میں افغان مہاجرین کی صورت حال کے بارے میں کچھ پڑھتی ہوں، تو میرے اپنے پرانے زخم تازہ ہو جاتے ہیں، وہ جانبدارانہ اور متعصبانہ سوچ جس کا تجربہ خود مجھے بھی ایران میں ہوا تھا۔ ایران میں افغان مہاجرین کو دوہرے تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے: ایک وہ منظم نسل پرستی جس کو ملکی قوانین ہوا دیتے ہیں اور دوسرا مقامی آبادی یا برادری کی سطح پر پایا جانے والا تعصب۔
تعصب کی پہلی قسم کے تحت افغان مہاجرین پر اضافی فیسیں اور ٹیکس لگائے جاتے ہیں اور انہیں عوامی شعبے میں حاصل ہونے والی خدمات تک رسائی نہیں دی جاتی۔ لیکن زیادہ خطرناک کمیونٹی کی سطح پر پایا جانے والا تعصب ہے۔ ایرانی عوام روزانہ کی بنیاد پر افغان مہاجرین کی تذلیل کرتے ہیں، اور یہ بات انہیں ذہنی طور پر اس طرح متاثر کرتی ہے کہ ان کی خود اعتمادی ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے اور ساتھ ہی مستقبل کے بارے میں ان کی تمام امیدیں بھی۔ یہ اسی ماحول کا نتیجہ ہے کہ ایران میں افغان مہاجرین کی ایک پوری نوجوان نسل خوف اور تضحیک کی فضا میں پرورش پا رہی ہے۔ زہرہ نادر لکھتی ہیں:
کئی اسکولوں میں داخلے سے انکار
انیس سو نوے کی دہائی میں جب افغانستان میں ہزارہ جات کا ہمارا آبائی علاقہ طالبان کے کنٹرول میں تھا، میرے والدین ترک وطن پر مجبور ہو گئے اور ایران وہ واحد ملک تھا جس کے بارے میں وہ کچھ جانتے تھے۔
جب ہم تہران کے نواح میں جعفر آباد کے ایک پسماندہ اور غریب علاقے میں پہنچے تو میری عمر صرف سات سال تھی، ایسی عمر جس میں بچوں کو اسکول جانا چاہیے۔ میری والدہ مجھے چند ماہ کے اندر اندر کئی مختلف اسکولوں میں لے کر گئیں لیکن مجھے ایک طالبہ کے طور پر وہاں قبول کرنے سے انکار کر دیا گیا۔
اب مجھے یہ علم نہیں کہ تب تارکین وطن یا مہاجرین کے طور پر ہماری قانونی حیثیت کیا تھی لیکن میرے والد کے بقول ان کے پاس جو بھی کاغذات تھے، انہیں اسکولوں حکام نے کچھ بھی نہ سمجھا اور مجھے میرے تعلیم کے حق سے محروم کر دیا گیا۔ ایک رات جب میری عمر نو سال تھی اور میرا نوجوان بھائی، جس کی عمر ابھی انیس سال سے بھی کم تھی اور جو ایک گلاس فیکٹری میں ڈبل شفٹ میں کام کرتا تھا، گھر لوٹا تو اس کے پاس ایک اچھی خبر تھی۔
ہمارے گھر کے پاس ہی افغان مہاجرین کے بچوں کے لیے ایک اسکول کھل گیا تھا، جسے افغان باشندے ہی چلاتے تھے۔ میں بڑے جوش میں آ گئی اور مجھے ساری رات نیند نہیں آئی تھی۔ میں یہ سب کچھ سوچتی رہی کہ میں اپنے اساتذہ کو کیسے مخاطب کروں گی، کوئی یونیفارم بھی پہننا پڑے گا، جیسے ایرانی بچے اسکول جاتے ہوئے پہنتے ہیں؟
پھر جب ہمارا اسکول میں داخلہ ہوا تو میں اور میری بڑی بہن معصومہ نے اپنے گھر کے لباس میں ہی اسکول جانا شروع کیا۔ کمرہ جماعت افغان بچوں سے بھرا ہوا تھا اور تمام بچے زمین پر ہی چار قطاروں میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میں اپنی ٹیچر کے سامنے پہلی قطار میں بیٹھی تھی: زہرہ، ایک افغان مہاجر لڑکی جسے اسکول میں داخلہ مل گیا تھا۔
ایران سے افغان مہاجرین کی تکلیف دہ واپسی
اقوام متحدہ کے مطابق ہم سایہ ممالک خصوصاﹰ ایران سے مہاجرین کو جنگ زدہ ملک افغانستان واپس بھیجا جا رہا ہے۔ صرف پچھلے ہفتے ایران سے چار ہزار افغان مہاجرین کو جبراﹰ واپس ان کے وطن بھیج دیا گیا۔
تصویر: DW/S. Tanha
ایک غیر یقینی مستقل
بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق 19 تا 25 نومبر کے دوران ہزاروں افغان مہاجرین کو ایران سے افغانستان واپس لوٹایا گیا۔ اس تنظیم کا کہنا ہےکہ مہاجرین کو واپس افغانستان بھیجنے کی ایک وجہ ایران میں تارکین وطن کے لیے پناہ گاہوں کی اب تر ہوتی صورت حال ہے۔
تصویر: DW/S. Tanha
ایک تنہا سڑک
عالمی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق 89 فیصد مہاجرین، جنہیں واپس افغانستان بھیجا گیا، تنہا تھے، جن میں سے بڑی تعداد تنہا مردوں کی تھی۔ واپس بھیجے جانے والے مہاجرین میں فقط سات خواتین تھیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
پرانے مہاجرین کا تحفظ
افغان مہاجرین کو شدید سردی کا سامنا ہے۔ بین الاقوامی تنظیم نے اس دوران ساڑھے سات سو مہاجر گروپوں کی امداد کی جن میں 127 تنہا بچے بھی شامل تھے، جب کہ 80 افراد کو طبی امداد دی گئی۔
تصویر: DW/S. Tanha
ایران میں مہاجرین سے نامناسب برتاؤ
اس شخص نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایران میں اسے بے دخل کرنے سے قبل ڈنڈے سے پیٹا گیا۔ اس کے مطابق اس کے پاس ایران میں کام کرنے کے باقاعدہ کاغذات بھی تھے مگر اسے واپس بھیج دیا گیا۔ ہرات میں ایرانی قونصل خانے کے ایک عہدیدار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ افغان مہاجرین کے خلاف سخت پالیسیاں اختیار نہیں کی جا رہیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
سخت سردی میں گھر واپسی کا راستہ بھی نہیں
ایران بدر کیے جانے والے اس مہاجر نے نام نہیں بتایا مگر اسے بارہ دن تک ایک حراستی مرکز میں کام کرنا پڑا تاکہ وہ اس قید سے نکل سکے۔ ’’یہاں سخت سردی ہے اور میری رگوں میں لہو جم رہا ہے۔‘‘ میں نے اپنا فون تک بیچ دیا تاکہ مجھے رہائی ملے۔ اب میں یہاں سرحد پر ہوں اور گھر واپسی تک کے پیسے نہیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
مشکل زندگی کو واپسی
بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق ساڑھے پانچ لاکھ سے زائد افغان مہاجرین رواں برس ایران اور پاکستان سے وطن واپس پہنچے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ قریب 90 ہزار افراد افغانستان میں داخلی طور پر بے گھر ہیں اور مختلف کیمپوں میں نہایت کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
تصویر: DW/S. Tanha
6 تصاویر1 | 6
تہران میں ہراساں کیے جانے کے واقعات
ہمیں اسکول جاتے ہوئے ایک مہینہ ہی ہوا تھا کہ ایک روز میری والدہ نے اعلان کر دیا کہ اب ہم اسکول نہیں جا سکتے۔ میرے والد اور بھائیوں کی محنت مشقت سے حاصل ہونے والی آمدنی سے صرف ہمارے گھر کا کرایہ اور کھانے پینے کا خرچ ہی پورا ہو سکتا تھا۔ اس رات میں اپنے کمبل کے نیچے بہت دیر تک روئی تھی۔ میں نے اپنے اسکول کو خیرباد کہنے کا وعدہ تو کر لیا اور اس کے ساتھ ہی اپنے تمام خوابوں کو بھی، لیکن میں اس میں کامیاب نہ ہو سکی۔
جب میں نے اسکول جانا بند کر دیا تو گھر میں مجھے یہ کام سونپا گیا کہ میں دن میں دو مرتبہ قلعہ یداللہ نامی قریبی علاقے میں ایک بیکری سے روٹی لے آیا کروں۔ ایک دوپہر میری ہی عمر کی ایک ایرانی لڑکی بیکری سے واپس آتے ہوئے میرے راستے میں کھڑی ہو گئی۔ میں نے سنہری رنگ کے کناروں والا ایک کالا اسکارف پہنا ہوا تھا۔ ''اپنا اسکارف مجھے دے دو،‘‘ اس لڑکی نے کہا۔ میرے ہاتھ میں چار بڑی بڑی گرم گرم روٹیاں تھیں، جنہیں میں نے اپنے سینے سے لگا رکھا تھا۔ میں نے اس لڑکی کو اپنا اسکارف نہ دینے کی جو بھی وجہ پیش کی، وہ اس سے مطمئن نہ ہوئی اور یہی کہتی رہی کہ مجھے اپنا اسکارف دے دو۔ میرا گھر قریب ہی تھا۔ میں نے ہمت کی اور بھاگ کر اپنے گھر جا رہی تھی تو اس لڑکی نے پیچھے سے چیخ کر کہا، ''بدتمیز افغان! میں تمہیں کل دیکھ لوں گی۔‘‘
اگلے چند روز تک جب میں اس لڑکی کے گھر والے علاقے سے گزرتی تو میری والدہ میرے ساتھ ہوتی تھیں۔ بعد میں ثابت یہ ہوا کہ وہ لڑکی افغان بچوں کو ہراساں کرنے والی کوئی واحد ایرانی لڑکی نہیں تھی۔ پھر میں نے اپنے افغان ہونے کی شناخت ہو جانے سے بچنے کے لیے ایرانی فارسی کا لسانی لہجہ بھی اپنا لیا تھا۔ مگر یہ بھی میرے کسی کام نہ آیا۔ میں بیکری سے روٹی لینے کے لیے بڑوں کے ساتھ قطار میں کھڑے ہوئے بھی خود کو غیر محفوظ سمجھنے لگی تھی۔ ایرانی عورتیں مجھے کھینچ کر قطار سے باہر کر دیتیں اور میری جگہ لے لیتی تھیں۔
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
8 تصاویر1 | 8
جس دن میں نے ہمت ہار دی
ایک واقعے نے مجھے ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ یہ واقعہ تہران سے شمال مشرق کی طرف بحیرہ کیسپیئن کے کنارے واقع ایرانی شہر عباس آباد میں پیش آیا تھا۔ میں دوپہر کے وقت ایک سٹور سے واپس گھر جا رہی تھی تو چند نوجوان ایرانی لڑکے گلی میں فٹ بال کھیل رہے تھے۔ ایک لڑکے نے فٹ بال کو بڑے زور سے کک لگائی اور وہ میرے کان کے قریب سر پر لگا۔ مجھے بہت درد ہوا اور میرے کان گونجنے لگے۔ میں رو پڑی تھی اور گھر کی طرف بھاگی۔ وہ لڑکا ہمارا ہمسایہ تھا اور گلی کے کونے پر ہی رہتا تھا۔ میری والدہ مجھے لے کر اس کے گھر کے دروازے تک گئیں تو اس کی ماں سنتی رہی اور اس نے کچھ نہ کہا۔ ایک اور ہمسایہ، جس کا بیٹا بھی فٹ بال کھیلنے والے لڑکوں میں شامل تھا، ہمارے سامنے آ کر چیخ کر بولا، ''تمہیں ہمت کیسے ہوئی ہمارے دروازے تک آنے کی؟ یہ ایران ہے۔ میری خواہش ہے کہ میرے بیٹے نے تمہاری بیٹی کو پیٹا ہوتا اور میں تمہارے گھر کا سامان اٹھا کر باہر گلی میں پھینک دیتا۔ بدتمیز افغان! جاؤ، اپنے ملک واپس جاؤ!‘‘
وہ آدمی بولتا رہا لیکن مجھے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ اس روز میں نے اپنی بچی کھچی ہمت بھی ہار دی۔ اگلے دن میری سماعت تو کافی حد تک لوٹ آئی لیکن میں وہ ٹین ایجر لڑکی نہیں رہی تھی جو میں ایک روز پہلے تھی۔ اس کے بعد سے میں نے اپنی والدہ کے ساتھ کسی بھی معاملے میں کبھی دوبارہ کوئی شکایت نہ کی۔ میں نے وعدہ کر لیا تھا کہ میں نسل پرستی اور تعصب کے سامنے خاموش رہوں گی تاکہ کوئی میری ماں کی سرزنش نہ کرے۔ میں نے یہ وعدہ برسوں تک نہیں توڑا تھا۔ یہ وعدہ میں نے آج توڑا ہے۔ 2003ء کے بعد سے میں کبھی واپس ایران نہیں گئی، لیکن میرے اندر خوف اور تذلیل کا یہ احساس تو ہمیشہ موجود رہے گا۔
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dap/M. Jawad
6 تصاویر1 | 6
افغانوں کے خلاف تعصب آج بھی ہے
جب ہم نے ایران چھوڑا تو میرا ایک کزن جو ہمارے ساتھ ہی ہمارے رہائشی احاطے میں رہتا تھا، اس کی ایک دو سال کی بیٹی بھی تھی، جس کا نام زہرہ تھا۔ وہ آج بھی ایران میں ہی رہتے ہیں اور اس کی بیٹی خوش قسمت ہے کہ وہ اب ایک مقامی پبلک اسکول جاتی ہے۔ جب میں نے اس وقت انیس سالہ زہرہ سے بات کی، اور اس سے اس کی مستقبل کے بارے میں امیدوں سے متعلق دریافت کیا، تو اس نے اپنا جواب صیغہ ماضی میں دیا، ''مجھے ڈاکٹر بننا پسند تھا، بڑا شوق تھا مجھے۔ میں بہت اچھے نمبر لینے کے لیے سخت محنت بھی کرتی رہی تھی۔ لیکن جب میں نے دیکھا کہ افغان طلبا و طالبات یونیورسٹی جانے کے متحمل نہیں ہو سکتے، تو میری امیدیں ناامیدی میں بدل گئیں۔‘‘
زہرہ کی باتیں سن کر میں سمجھ گئی کہ ایران میں افغان مہاجرین کی زندگی آج بھی زیادہ نہیں بدلی۔ زہرہ نے مجھے بتایا، ''ہمارے ایک ایرانی ہمسائے کا فون گلی میں گم ہو گیا۔ وہ ہمارے دروازے تک آ گیا، لیکن ہم گھر پر نہیں تھے۔ صرف میرا سب سے چھوٹا بھائی حسین گھر پر تھا۔ اس ہمسائے نے حسین کو پیٹا اور اس پر فون چوری کرنے کا الزام لگایا۔ پھر اس نے اسے دھمکیاں بھی دیں اور گالیاں بھی، یہ کہتے ہوئے کہ اس نے خود دیکھا تھا کہ اس کا فون حسین نے ہی چرایا تھا۔ اگلے روز اس شخص کے ایک اور ہمسائے کو اس کا فون گلی میں گرا ہوا ملا اور اس نے وہ فون اس کے مالک کو لوٹا دیا تھا۔‘‘
زہرہ اگلے سال اپنی اسکول کی تعلیم مکمل کر لے گی۔ لیکن وہ یہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ وہ یونیورسٹی جا سکے گی، ''اگر میرے بہت اچھے نمبر آ بھی گئے اور میں نے داخلے کا امتحان پاس بھی کر لیا، مجھے پھر بھی اضافی فیس تو ادا کرنا پڑے گی۔ کیونکہ میں ایک افغان مہاجر ہوں۔ ‘‘ زہرہ کے ماں باپ دونوں ہی زرعی شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ کاشتکاری کرتے ہیں اور سلاد اگاتے ہیں۔ زہرہ کے مطابق، ''اگر میں خود کو مستقبل میں آگے بڑھتے ہوئے دیکھ ہی نہیں سکتی، تو یہ سب کچھ فضول ہی تو ہے۔ میرا جوش و جذبہ ختم ہو چکا ہے۔‘‘
اس تحریر کی مصنفہ زہرہ نادر ایک صحافی کے طور پر امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے لیے کام کرتی رہی ہیں۔
زہرہ نادر (م م / ع ا)
'موت کے راستے‘ پر زندگی داؤ پر لگاتے افغان مہاجر لڑکے
بیشتر تارکینِ وطن کو اٹلی سے فرانس کے درمیان بارڈر کراس کرنے کے لیے جس راستے پر سفر کرنا پڑتا ہے اسے ’ڈیتھ پاس‘ یا موت کا راستہ کہتے ہیں۔ یہ راستہ بے حد پُر خطر ہے۔ اس سفر کا اختتام بعض اوقات موت پر ہوتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
جنگل میں
پولیس کے تعاقب سے خوفزدہ کم سن افغان لڑکوں کا ایک گروپ بارہ کلو میٹر لمبے ٹریک پر روانہ ہے۔ یہ راستہ ’ڈیتھ پاس ‘ کہلاتا ہے جو اونچی نیچی ڈھلانوں اور خطرناک پہاڑوں پر مشتمل ہے اور فرانس کے سرحدی قصبے ’مونتوں‘ تک جاتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
ایک دھوکے باز راستہ
وہ تارکین وطن جو اٹلی سے فرانس جانے کے لیے اس راستے کا انتخاب کرتے ہیں اُنہیں سفر کے دوران پتہ چلتا ہے کہ اس راستے پر چلتے ہوئے ہر پل موت کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ دلدلی زمین، خطرناک موڑ اور پہاڑوں کا سفر بعض اوقات مہلک ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
زیرِزمین ٹنل
بہت سے مہاجرین فرانس جانے کے لیے جنگلات سے گزر کر ہائی وے تک جاتے ہیں جو اُنہیں اس باڑ تک لے آتی ہے۔ یہاں سے وہ ایک زیرِ زمین ٹنل سے پیدل گزرتے ہیں جو خود کو موت کے منہ میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
تصویر: DW/F.Scoppa
فطرت پر انحصار
وہ تارکین وطن جو فرانس جانے کے لیے ’ڈیتھ پاس‘ کا انتخاب کرتے ہیں، عموماﹰ وہ یہ اقدام راستے کے بارے میں معلومات حاصل کیے بغیر اور کھانے پینے کا سامان ہمراہ لیے بغیر ہی اٹھا لیتے ہیں۔
تصویر: DW/F.Scoppa
بوڑھے کسانوں کے اسٹور ہاؤس
مہاجرین اور تارکین وطن کبھی کبھار بوڑھے کسانوں کے خالی اسٹور ہاؤسز کو پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہاں اُنہیں پرانے کپڑے بھی مل جاتے ہیں۔ اپنے نسبتاﹰ صاف اور نئے کپڑوں کے مقابلے میں یہ پرانے کپڑے تبدیل کر کے تارکینِ وطن سمجھتے ہیں کہ اس طرح اُنہیں فرانس کی پولیس سے چھپنے میں مدد ملے گی۔
تصویر: DW/F.Scoppa
اٹلی اور فرانس کی سرحد پر
اٹلی اور فرانس کی سرحد پر نصب ایک پرچم سے پتہ چلتا ہے کہ لوگ کس مقام سے سرحد کے دوسری طرف جا سکتے ہیں۔ یہ باڑ فرانس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد اٹلی کی جانب سے امیگریشن روکنے کے لیے تعمیر کی تھی۔
تصویر: DW/F.Scoppa
اب کیا کریں؟
افغان مہاجر لڑکے اندازہ لگا رہے ہیں کہ وہ فرانس کے قصبے مونتوں تک جانے کے لیے نیچے ڈھلانی راستے سے کس طرح اتریں۔ اس مقام پر اکثر تارکینِ وطن کو بارڈر پولیس پکڑ لیتی ہے اور اُنہیں واپس اٹلی بھیج دیا جاتا ہے۔