ایران میں انسانی حقوق کی صورت حال بہتر کب ہو گی؟
7 اکتوبر 2016تہران حکومت ملک میں انسانی حقوق کے احترام کا کتنا خیال رکھتی ہے، اس بارے میں اندرون ملک اور بیرون ملک نئی بحث کی وجہ یہ ہے کہ ایران میں حال ہی میں انسانی حقوق کی ایک سرکردہ خاتون کارکن کوسنائی گئی 16 برس قید کی سزا کی توثیق کر دی گئی۔ اس عدالتی فیصلے پر تنقید کے جواب میں تہران کا موقف یہ ہے کہ یہ ایران کا ایک ’اندرونی معاملہ‘ ہے۔
اس ایرانی خاتون کا نام نرگس محمدی ہے، جسے 10 دسمبر کے روز انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر جرمن شہر وائیمار کا ہیومن رائٹس ایوارڈ دیا جانا ہے۔ نرگس محمدی نے آج تک ایران میں سزائے موت کے خلاف اور آزادی اظہار کے حق میں ایک ایسی طویل اور غیر معمولی جدوجہد کی ہے، جس دوران کئی بار ان کی اپنی زندگی بھی شدید خطرات کا شکار رہی۔
اب دسمبر کے اوائل میں خاتون وکیل نرگس محمدی وائیمار میں اپنا یہ انعام خود وصول نہیں کر سکیں گی، کیونکہ وہ ایرانی دارالحکومت تہران کی بدنام زمانہ اوین جیل میں قید ہیں۔
نرگس محمدی، جو ایران میں انسانی حقوق کی واحد اور اب ممنوعہ تنظیم کی ترجمان بھی ہیں، کا واحد قصور یہ تھا کہ انہوں نے مارچ 2014ء میں تہران میں اس وقت کی یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران اہلکار کیتھرین ایشٹن سے ایک ملاقات کی تھی۔
اس ملاقات میں نرگس محمدی کے ساتھ ایک ایسی بزرگ خاتون بھی تھی، جس کا ایک بیٹا مارا گیا تھا۔ اس خاتون کا بیٹا کارکنوں کے حقوق کے لیے کوششیں کرنے والا ایک ایسا بلاگر تھا، جسے ایرانی حکام نے مبینہ طور پر انٹرنیٹ کی ’سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر ایران کی قومی سلامتی کے منافی حرکات‘ کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔
اس 35 سالہ ایرانی شہری کی گرفتاری کے پانچ روز بعد حکام نے اس کے اہل خانہ سے کہا تھا کہ وہ اوین کی جیل میں آ کر اس کی لاش لے جائیں۔ اس ایرانی شہری کی موت کے بعد سے اس کی والدہ اپنے ساتھ ہر وقت اپنے اس بیٹے کی ایک تصویر لیے پھرتی ہے، اور اس کا مطالبہ ہے کہ اسے انصاف مہیا کیا جائے۔
کیتھرین ایشٹن کے ساتھ اپنی ملاقات میں نرگس محمدی اس ’مقتول‘ ایرانی کارکن کی والدہ کو اس لیے ساتھ لے کر گئی تھیں کہ وہ دنیا کو بتا سکیں کہ ایران میں وہ کس طرح کی جدوجہد کیوں کر رہی ہیں۔
نرگس محمدی کی کیتھرین ایشٹن کے ساتھ اس ملاقات کے بعد نہ صرف ایرانی حکام بہت ناراض تھے بلکہ ملکی عدلیہ کے سربراہ نے ذاتی طور پر نرگس محمدی اور مغربی ملکوں کے سیاستدانوں کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ایسی ملاقاتیں دوبارہ عمل میں آئیں، تو ایرانی عدلیہ مداخلت کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔
نرگس محمدی کو، جو دو بچوں کی والدہ بھی ہیں، مئی 2015ء میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس سال مئی میں ملکی عدلیہ نے انہیں 16 برس قید کی سزا سنا دی تھی۔ وہ اس وقت شدید بیمار ہیں اور اسی سال ستمبر کے آخر میں بین الاقوامی سطح پر کیے جانے والے احتجاج کے باوجود ایران کی ایک اپیل کورٹ نے نرگس محمدی کو سنائی گئی سزائے قید کو بحال رکھا تھا۔
نرگس محمدی کے شوہر تقی رحمانی نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی اہلیہ کو سزائے قید ان کی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے بے خوف کوششوں کی وجہ سے سنائی گئی ہے اور اسی لیے یہ سزا دراصل ایرانی عدلیہ کی طرف سے نرگس محمدی سے بدلہ لینے کی ایک کوشش ہے۔
اہم بات یہ بھی ہے کہ نرگس محمدی کے شوہر تقی رحمانی، جو سیاسی موضوعات پر قلم اٹھانے والے ایک صحافی ہیں، خود بھی ایران میں 14 سال قید کی سزا کاٹ چکے ہیں اور اس وقت پیرس میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ انسانی حقوق کے احترام کے حوالے سے ایران پر بیرون ملک سے پڑنے والا دباؤ مؤثر تو ہے اور یہ جاری بھی رہنا چاہیے، لیکن یہ کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں انسانی حقوق کی صورت حال میں کب تک کوئی بہتری آ سکے گی، اس بارے میں کوئی کچھ بھی نہیں کہہ سکتا۔