ایران: ’کورونا وائرس کا مقابلہ مذہب سے کریں یا سائنس سے؟‘
3 مارچ 2020
ایران میں تیزی سے پھیلتا کورونا وائرس ایک نئی بحث کی وجہ بن گیا ہے، جس میں ایک بار پھر مذہب سائنس کے مقابل آ گیا ہے۔ ملک کی مذہبی اور حکومتی قیادت میں بحث یہ ہے کہ اس مہلک وائرس کا مقابلہ مذہب سے کیا جائے یا سائنس سے؟
ایرانی شہر قم میں فاطمہ معصومہ کا مزارتصویر: Getty Images/AFP/M.A. Marizad
اشتہار
ملکی دارالحکومت تہران سے موصولہ رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ چینی صوبے ہوبے کے شہر ووہان سے شروع ہو کر اب تک دنیا کے تمام آباد براعظموں میں 60 سے زائد ممالک میں پھیل جانے والے کورونا وائرس سے چین کے بعد جو ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، ان میں جنوبی کوریا کے ساتھ ساتھ ایران بھی شامل ہے۔
آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپایگانیتصویر: rasanews.ir
کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والی کووِڈ انیس نامی بیماری کے نتیجے میں ایران میں اب تک 66 افراد ہلاک اور ڈیڑھ ہزار سے زائد متاثر ہو چکے ہیں، جن میں کئی وزراء، مذہبی رہنما اور ارکان پارلیمان بھی شامل ہیں۔
شیعہ مسلم اکثریتی آبادی والے ایران میں ریاستی ڈھانچے کی طرف سے عوامی اور سیاسی زندگی میں مذہب کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران میں سپریم کمانڈر اور اعلیٰ ترین مذہبی رہنما کا مقام ملکی پارلیمان اور ریاستی صدر سے بھی اونچا ہوتا ہے۔
اس تناظر میں اب کورونا وائرس کے حوالے سے اسلامی جمہوریہ ایران میں بہت شدید ہو جانے والی موجودہ بحث یہ ہے کہ اس وائرس کا مقابلہ سائنسی تقاضوں کے مطابق کیا جائے یا پھر اس کے لیے مذہب اور عقیدے کو استعمال کیا جائے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ آج کے ایران میں ہونے والی یہ بحث انسانی تاریخ کی ایک بہت پرانی بحث ہے، جس میں مذہب روایتی طور پر سائنس اور سائنسی تقاضوں سے متصادم ہی رہا ہے۔
ایرانی شہر مشہد میں امام رضا کا مزارتصویر: mehr
مذہب بمقابلہ سائنس، صدیوں پرانی بحث
اس بحث کے بارے میں قم شہر سے تعلق رکھنے والے مذہبی علوم کے ماہر حجت الاسلام محسن الویری نے بتایا کہ اس موضوع پر ایرانی مذہبی قیادت تقسیم رائے کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا، ''یہ موضوع تو اسلام کے ابتدائی دنوں سے لے کر آج تک اسلامی فقہ کے ماہرین کے مابین اختلافات کا باعث بنا رہا ہے۔‘‘
حجت الاسلام الویری کے الفاظ میں، ''کچھ لوگ مذہبی احکامات اور رسومات کو اعلیٰ ترین ترجیح دیتے ہیں، طب اور سائنس سے بھی زیادہ۔ لیکن کچھ لوگوں کے مطابق مقصد اگر کسی کی جان بچانا ہو، تو نماز تک بھی، جو کہ لازمی ہے، چھوڑی جا سکتی ہے۔‘‘
کورونا وائرس کی الیکٹران مائیکروسکوپ سے لی گئی ایک تصویرتصویر: picture-alliance/AP/NIAID-RML
شیعہ مسلمانوں کے لیے خاص طور پر مقدس سمجھے جانے والے ایرانی شہر قم میں، جو ملک میں کورونا وائرس کی وبا کا مرکز بھی ہے، فاطمہ معصومہ کے مزار کے انتظامی سربراہ کا نام آیت اللہ محمد سعیدی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اس وبا کے باوجود مذہبی مقامات پر عام لوگوں کو بلا روک ٹوک آمد و رفت کی آئندہ بھی اجازت ہونا چاہیے، ''اس لیے کہ مزار کوئی بھی ہو، وہ تو مقدس ہوتا ہے۔ جسمانی اور روحانی بیماریوں کی علاج گاہ، جہاں لوگوں کا آتے رہنا چاہیے۔‘‘
'ایمان کی کمزوری‘
مگر گزشتہ ہفتے قم شہر میں عوامی سلامتی کے نگران اعلیٰ ترین ادارے کے سربراہ نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ وہاں جمعے کی باجماعت نمازیں اس لیے منسوخ کر دی جانا چاہییں کہ یہ وائرس ممکنہ طور پر کسی ایک نمازی سے دوسرے کو نہ لگے۔ لیکن اس اعلان کے چند ہی گھنٹے بعد فاطمہ معصومہ کے مزار کی انتظامیہ کی ویب سائٹ پر یہ اعلان کر دیا گیا، ''جمعے کی باجماعت نماز منسوخ کرنے کا فیصلہ ایک غلطی تھا، جو ایمان کی کمزوری کی وجہ سے سرزد ہوئی۔‘‘
گزشتہ جمعرات کو اس بحث میں ایران کے موجودہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای بھی اس وقت شامل ہو گئے، جب انہوں نے اپنے ایک بیان میں بین السطور میں اس وائرس پر قابو پانے کی کوششوں میں مذہب کے ساتھ ساتھ طبی سائنس کی بھی حمایت کی۔ خامنہ ای نے ایرانی ڈاکٹروں اور نرسوں کی کوششوں کو سراہتے ہوئے یہ امید ظاہر کی تھی کہ ان کی محنت سے ایران میں کورونا وائرس کا جلد ہی خاتمہ کر دیا جائے گا۔
کورونا وائرس کے بارے میں مفروضے اور حقائق
کورونا وائرس کی نئی قسم سے بچاؤ کے حوالے سے انٹرنیٹ پر غلط معلومات کی بھرمار ہے۔ بہت زیادہ معلومات میں سے درست بات کون سی ہے اور کیا بات محض مفروضہ۔ جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: DW/C. Walz
کیا نمکین پانی سے ناک صاف کرنا سود مند ہے؟
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ نمکین محلول ’سلائن‘ وائرس کو ختم کر کے آپ کو کورونا وائرس سے بچا سکتا ہے۔
غرارے کرنے سے بچاؤ ممکن ہے؟
کچھ ماؤتھ واش تھوڑی دیر کے لیے مائکروبز کو ختم کرنے میں مددگار ہوتے ہیں لیکن عالمی ادارہ صحت کے مطابق ان سے غرارے کرنے سے بھی کورونا وائرس کی نئی قسم سے نہیں بچا جا سکتا۔
لہسن کھانے کا کوئی فائدہ ہے؟
انٹرنیٹ پر یہ دعویٰ جنگل میں آگ کی طرح پھیلتا جا رہا ہے کہ لہسن کھانے سے کورونا وائرس بے اثر ہو جاتا ہے۔ تاہم ایسے دعووں میں بھی کوئی حقیقت نہیں۔
پالتو جانور کورونا وائرس پھیلاتے ہیں؟
انٹرنیٹ پر موجود کئی نا درست معلومات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بلی اور کتے جیسے پالتو جانور کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا سبب بنتے ہیں۔ اس بات میں بھی کوئی صداقت نہیں۔ ایسے پالتو جانور اگرچہ ’ایکولی‘ اور دیگر طرح کے بیکٹیریا ضرور پھیلاتے ہیں۔ اس لیے انہیں چھونے کے بعد ہاتھ ضرور دھو لینا چاہییں۔
خط یا پارسل بھی کورونا وائرس لا سکتا ہے؟
کورونا وائرس خط اور پارسل کی سطح پر زیادہ دیر نہیں ٹھہر سکتا۔ اس لیے اگر آپ کو چین یا کسی دوسرے متاثرہ علاقے سے خط یا پارسل موصول ہوا ہے تو گھبرانے کی کوئی بات نہیں، کیوں کہ اس طرح کورونا وائرس کا شکار ہونے کا خطرہ قریب نہ ہونے کے برابر ہے۔
کورونا وائرس کی نئی قسم کے لیے ویکسین بن چکی؟
کورونا وائرس کی اس نئی قسم کے علاج کے لیے ابھی تک ویکسین تیار نہیں ہوئی۔ نمونیا کے لیے استعمال ہونے والی ویکسین وائرس کی اس نئی قسم پر اثر انداز نہیں ہوتی۔
جراثیم کش ادویات کورونا وائرس سے بچا سکتی ہیں؟
ایتھنول محلول اور دیگر جراثیم کش ادویات اور اسپرے سخت سطح سے کوروانا وائرس کی نئی قسم کو ختم کر دیتے ہیں۔ لیکن انہیں جلد پر استعمال کرنے کا قریب کوئی فائدہ نہیں۔
میل ملاپ سے گریز کریں!
اس نئے وائرس سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ کھانا بہت اچھے طریقے سے پکا کر کھائیں۔ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد سے ملنے سے گریز کریں۔
ہاتھ ضرور دھوئیں!
صابن اور پانی سے اچھی طرح ہاتھ دھونے سے انفیکشن سے بچا جا سکتا ہے۔ ہاتھ کم از کم بیس سیکنڈز کے لیے دھوئیں۔ کھانستے وقت یا چھینک آنے کی صورت میں منہ کے سامنے ہاتھ رکھ لیں یا ٹیشو پیپر استعمال کریں۔ یوں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
9 تصاویر1 | 9
یہی نہیں آیت اللہ علی خامنہ ای کے اس بیان کے مطابق قم شہر میں آیت اللہ العظمیٰ صافی گلپایگانی نامی انتہائی اہم مذہبی شخصیت نے بھی یہ فتویٰ جاری کر دیا تھا کہ عوام کو کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ملکی وزارت صحت کی سفارشات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
'دیکھو! میں وائرس کھا رہا ہوں‘
اس موقف کے بالکل برعکس ایران میں ابھی حال ہی میں ایک ایسی ویڈیو بھی وائرل ہو گئی، جس میں شیعہ مسلمانوں کے ایک ذیلی مذہبی گروپ کے ایک رکن کو مشہد میں امام رضا کے مزار پر دیکھا جا سکتا تھا۔ جعفر غفوری نامی یہ سرگرم سماجی شخصیت اس ویڈیو میں امام رضا کے روضے کو اپنی زبان سے چاٹتے ہوئے دیکھی جا سکتی تھی اور ساتھ ہی جعفر غفوری نے یہ بھی کہا تھا، ''یہ دیکھو، میں یہ وائرس کھا رہا ہوں، تاکہ آپ کو یقین آ جائے اور آپ بھی آئندہ اس مزار پر باقاعدگی سے آتے رہیں۔‘‘
کووِڈ انیس نامی اس بیماری کے پھیلاؤ کے روکنے کے لیے مذہب پر زیادہ انحصار کیا جائے یا سائنس اور طبی سائنسی اصولوں پر، اس حوالے سے ایران میں جاری بحث فوری طور پر ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ لیکن یہ وائرس اب تک دنیا کے 60 سے زائد ممالک میں پھیل چکا ہے، اس کی وجہ سے تین ہزار سے زائد انسان ہلاک اور 90 ہزار سے زیادہ متاثر ہو چکے ہیں۔
ایران میں تاحال 66 انسانی ہلاکتوں کے ساتھ ساتھ 1501 افراد کے مصدقہ طور پر اس وائرس کا شکار ہو جانے کے باوجود، جب تک وہاں سائنسی تقاضوں اور عقیدے کے مابین تصادم جاری رہے گا، تب تک کورونا وائرس کے خلاف جنگ بھی بھرپور طریقے سے نہ لڑی اور نہ ہی جیتی جا سکے گی۔
م م / ع ا (اے ایف پی، اے پی)
کورونا وائرس سے متاثر ہونے والی بعض صنعتیں
چینی شہر ووہان میں کورونا وائرس کی وبا نے کئی صنعتی اداروں کو متاثر کیا ہے۔ بعض اداروں کے لیے یہ وبا منفعت کا باعث بنی ہے اور کئی ایک کو مسائل کا سامنا ہے۔ بعض اس وائرس کو عالمی طلب میں رکاوٹ قرار دیتے ہیں۔
تصویر: VLADIMIR MARKOV via REUTERS
جرمن چانسلر ووہان میں
سن 2019 میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے ووہان میں ویباسٹو فیکٹری کے بڑے پلانٹ کے دورہ کیا تھا۔ اب یہ کارخانہ بند ہے۔ جرمن ادارے زیمینز کے مطابق اس وبا کے دوران ایکس رے مشینوں کی طلب زیادہ ہونے کا امکان کم ہے اور فوری طور پر کم مدتی کاروباری فائدہ دکھائی نہیں دیتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Kappeler
صفائی ستھرائی اور صفائی ستھرائی
کورونا وائرس کی وبا سے کیمیکل فیکٹریوں کی چاندی ہو گئی ہے۔ ڈس انفیکشن سیال مادے کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ جراثیم کش پلانٹس کو زیادہ سپلائی کے دباؤ کا سامنا ہے۔ یہ ادارے زیادہ سے زیادہ ایسے مواد کی سپلائی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Pleul
دوکانیں اور ریسٹورانٹس
ووہان میں کے ایف سی اور پیزا ہٹ کے دروازے گاہکوں کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔ سویڈن کے کپڑوں کے اسٹور ایچ اینڈ ایم کی چین بھر میں پینتالیس شاخیں بند کر دی گئی ہیں۔ جینر بنانے لیوائی کے نصف اسٹورز بند کیے جا چکے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسے بڑے اداروں کو کوئی پریشانی نہیں ہو گی کیونکہ آن لائن بزنس سے ان کو کسی مالی نقصان کا سامنا نہں ہے۔
تصویر: picture-alliancedpa/imaginechina/Y. Xuan
ایڈیڈاس اور نائیکی
کھیلوں کا سامان بنانے والے امریکی ادارے نائیکی کی طرح اُس کے جرمن حریف ایڈیڈاس نے بھی کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد اپنے بیشتر اسٹور بند کر دیے ہیں۔ مختلف دوسرے اسٹورز بھی صورت حال پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس وائرس کے پھیلاؤ سے ان اداروں کو پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ لگانا ابھی قبل از وقت خیال کیا جا رہا ہے۔ اشتہاری کاروباری سرگرمیاں بھی محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Stringer/Imaginechina
کارساز اداروں کی پریشانی
اس وائرس کی وبا سے چین میں غیرملکی کار ساز اداروں کی پروڈکشن کو شدید مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ مختلف کار ساز ادارے اپنی فیکٹریوں کو اگلے ہفتے کھولنے کا سوچ رہے ہیں۔ جرمن کار ساز ادارے فوکس ویگن کی چین میں تینتیس فیکٹریاں ہیں اور ادارہ انہیں پیر دس فروری کو کھولنے کی خواہش رکھتا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ گاڑیوں کی پروڈکشن کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔
تصویر: Imago Images/Xinhua
کوئی بھی محفوظ نہیں ہے
مرسیڈیز بنانے والے ادارے ڈائملر کا کہنا ہے کہ وہ اگلے پیر سے اپنی فیکٹری کھول دیں گے۔ فیکٹری کو یہ بھی فکر لاحق ہے کہ کارخانے کے ورکرز گھروں سے نکل بھی سکیں گے کیونکہ یہ تاثر عام ہے کہ کوئی بھی انسانی جان کورونا وائرس کی لپیٹ میں آ سکتی ہے۔ کئی گاڑیوں کو فروخت کرنے والے اداروں کے ملازمین گھروں میں بیٹھ کر کام کر رہے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
ہونڈا کی احتیاط
جاپانی کار ساز ادارے ہونڈا کے فاضل پرزے بنانے والی تین فیکٹریاں ووہان شہر میں ہیں۔ یہ چینی قمری سال کے آغاز سے بند ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق یہ تیرہ فروری تک بند رہیں گے۔ ایک ترجمان کے مطابق یہ واضح نہیں کہ ہونڈا کی پروڈکشن شروع ہو سکے گی کیونکہ مقامی انتظامیہ کی ہدایات پر عمل کرنا لازمی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اضافی سپلائی روانہ کرنے کا امکان نہیں
کورونا وائرس سے بین الاقوامی سپلائی میں رکاوٹوں کا پیدا ہونا یقینی خیال کیا گیا ہے کیونکہ موجودہ صورت حال بہت گھمبیر ہو چکی ہے۔ اس کی بڑی مثال کار انڈسٹری ہے۔ جنوبی کوریائی کار ساز ادارے ہنڈائی نے تو اپنے ملک میں پروڈکشن بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ چین سے اضافی پرزوں کی سپلائی ممکن نہیں رہی۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ صورت حال ساری دنیا میں پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔
تصویر: Reuters/Aly Song
چینی لوگ بھی محتاط ہو کر دوری اختیار کر رہے ہیں
کورونا وائرس کے اثرات جرمن فیسٹیول پر بھی ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ ان میلوں میں شریک ہونے والے چینی شہری وائرس کی وجہ سے پریشانی کا شکار ہیں اور اس باعث شرکت سے دوری اختیار کرنے لگے ہیں۔ فرینکفرٹ میں صارفین کے سامان کے بین الاقوامی فیسٹیول ایمبینٹے میں کم چینی افراد کی شرکت کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ لفتھانزا سمیت کئی دوسری فضائی کمپنیوں نے وائرس کی وجہ سے چین کے لیے پروازیں بند کر دی ہیں۔
تصویر: Dagmara Jakubczak
جرمنی میں وائرس سے بچاؤ کی تیاری
فرینکفرٹ میں شروع ہونے والے فیسٹیول میں شرکا کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک قرنطینہ یا کوارنٹائن تیار کی گئی ہے تا کہ کسی بھی مہمان میں اس کی موجودگی کی فوری تشخیص کی جا سکے۔ ووہان سے جرمنی کے لیے کوئی براہ راست پرواز نہیں ہے۔ جرمن شہر فرینکفرٹ کے لیے زیادہ تر پروازیں بیجنگ اور ہانگ کانگ سے اڑان بھرتی ہیں۔