امریکی پابندیوں اور کورونا وائرس کی وبا کے باعث پہلے ہی سے مالی وسائل کی کمی کے شکار ملک ایران میں درآمدی بجٹ کے لیے مختص کردہ رقوم میں سے تقریباﹰ پانچ ارب ڈالر غائب ہو گئے ہیں۔
اشتہار
حال ہی میں منظر عام پر آنے والا یہ معاملہ ایرانی ٹیکس دہندگان کو بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔ ایران میں سرکاری رقوم کے استعمال کا آڈٹ کرنے والے اعلیٰ ترین ملکی ادارے 'دیوان محاسبات کشور‘ یا سپریم آڈٹ کورٹ (ایس اے سی) کے سربراہ عادل آذر نے چودہ اپریل کو عوامی سطح پر یہ اعلان کیا تھا کہ حکومت کی طرف سے مختص کردہ ملکی درآمدی بجٹ میں سے تقریباﹰ پانچ ارب ڈالر غائب ہو گئے ہیں۔ اس بارے میں عادل آذر کی طرف سے ایک باقاعدہ رپورٹ اب ملکی دفتر استغاثہ کو بھی بھجوائی جا چکی ہے۔
سپریم آڈٹ کورٹ کی اس رپورٹ کے مطابق تہران حکومت نے گزشتہ برس مارچ سے لے کر اس سال مارچ تک کے ایک سال کے عرصے کے دوران درآمدات کی مد میں 31.4 ارب ڈالر کا بجٹ مختص کیا تھا۔ اس دوران لیکن جتنی بھی مصنوعات درآمد کی گئیں، ان کی مالیت 26.6 ارب ڈالر رہی جبکہ باقی ماندہ 4.8 ارب ڈالر کا کوئی علم نہیں کہ وہ کہاں گئے۔ اس ادارے کو ان تقریباﹰ پانچ بلین ڈالر کے ممکنہ استعمال سے متعلق کوئی دستاویزی ریکارڈ یا شواہد بھی نہ مل سکے۔
صدر حسن روحانی کا ردعمل
'دیوان محاسبات کشور‘ کے سربراہ کا موقف منظر عام پر آنے کے ایک روز بعد ایرانی صدر حسن روحانی نے اپنے ردعمل میں کہا تھا، ''کچھ بھی غائب نہیں ہوا۔ حکومت کے پاس ایسی کاروباری شخصیات کی ایک فہرست موجود ہے، جنہوں نے درآمدات کے لیے حکومت سے سبسڈی کے ساتھ زر مبادلہ کے طور پر ڈالر حاصل کیے تھے۔‘‘
ساتھ ہی صدر روحانی نے عادل آذر پر غلط فہمیاں پیدا کرنے والی معلومات پھیلانے کا الزام بھی لگایا تھا۔ ایرانی صدر نے زور دے کر کہا تھا کہ اربوں کی یہ رقوم غائب نہیں ہوئیں اور ماضی کی طرح حکومت کو درآمد کنندگان پر اب بھی پورا اعتماد ہے۔
ساتھ ہی صدر روحانی نے یہ بھی کہا تھا کہ ایسے کاروباری افراد جنہوں نے ایک سال کے مذکورہ عرصے کے دوران ایران میں کوئی مصنوعات درآمد نہیں کیں، انہیں سپریم آڈٹ کورٹ سے رابطہ کرنا چاہیے تاکہ یہ وضاحت کی جا سکے کہ انہوں نے انہیں دیا گیا زر مبادلہ کہاں خرچ کیا۔
عدلیہ غیر مطمئن
ایرانی عدلیہ کے لیے صدر روحانی کا یہ وضاحتی موقف تسلی بخش ثابت نہیں ہوا تھا۔ ملکی دفتر استغاثہ کے اعلیٰ اہلکار علی الغازی نے رواں ہفتے کے آغاز پر ستائیس اپریل کو یہ اعلان بھی کر دیا کہ ان کا ادارہ ایرانی مرکزی بینک کے 25 اہلکاروں کے خلاف اپنی چھان بین جاری رکھے ہوئے ہے، جن میں چند انتہائی سرکردہ عہدیدار بھی شامل ہیں۔
دنیا کی کمزور اور مضبوط ترین کرنسیاں
ڈالر کے مقابلے میں دنیا کی پانچ مضبوط ترین اور پانچ کمزور ترین کرنسیاں کون سے ممالک کی ہیں اور پاکستانی روپے کی صورت حال کیا ہے۔ جانیے اس پکچر گیلری میں
تصویر: DW/Marek/Steinbuch
1۔ کویتی دینار، دنیا کی مہنگی ترین کرنسی
ڈالر کے مقابلے میں سب سے زیادہ مالیت کویتی دینار کی ہے۔ ایک کویتی دینار 3.29 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ اس چھوٹے سے ملک کی معیشت کا زیادہ تر انحصار تیل کی برآمدات پر ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Al-Zayyat
2۔ بحرینی دینار
دوسرے نمبر پر بحرینی دینار ہے اور ایک بحرینی دینار کی مالیت 2.65 امریکی ڈالر کے برابر ہے اور یہ ریٹ ایک دہائی سے زائد عرصے سے اتنا ہی ہے۔ کویت کی طرح بحرینی معیشت کی بنیاد بھی تیل ہی ہے۔
تصویر: imago/Jochen Tack
3۔ عمانی ریال
ایک عمانی ریال 2.6 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ اس خلیجی ریاست میں لوگوں کی قوت خرید اس قدر زیادہ ہے کہ حکومت نے نصف اور ایک چوتھائی ریال کے بینک نوٹ بھی جاری کر رکھے ہیں۔
تصویر: www.passportindex.org
4۔ اردنی دینار
اردن کا ریال 1.40 امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ دیگر خلیجی ممالک کے برعکس اردن کے پاس تیل بھی نہیں اور نہ ہی اس کی معیشت مضبوط ہے۔
تصویر: Imago/S. Schellhorn
5۔ برطانوی پاؤنڈ
پانچویں نمبر پر برطانوی پاؤنڈ ہے جس کی موجودہ مالیت 1.3 امریکی ڈالر کے مساوی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ایک برطانوی پاؤنڈ کے بدلے امریکی ڈالر کی کم از کم قیمت 1.2 اور زیادہ سے زیادہ 2.1 امریکی ڈالر رہی۔
تصویر: picture-alliance/imageBROKER
پاکستانی روپے کی صورت حال
ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں حالیہ دنوں کے دوران مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں امریکی ڈالر کی روپے کے مقابلے میں کم از کم مالیت 52 اور 146 پاکستانی روپے کے درمیان رہی اور یہ فرق 160 فیصد سے زائد ہے۔ سن 2009 میں ایک امریکی ڈالر 82 اور سن 1999 میں 54 پاکستانی روپے کے برابر تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam
بھارتی روپے پر ایک نظر
بھارتی کرنسی امریکی ڈالر کے مقابلے میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستانی روپے کے مقابلے میں مستحکم رہی۔ سن 1999 میں ایک امریکی ڈالر قریب 42 بھارتی روپوں کے برابر تھا جب کہ موجودہ قیمت قریب 70 بھارتی روپے ہے۔ زیادہ سے زیادہ اور کم از کم مالیت کے مابین فرق 64 فیصد رہا۔
تصویر: Reuters/J. Dey
5 ویں کمزور ترین کرنسی – لاؤ کِپ
جنوب مشرقی ایشائی ملک لاؤس کی کرنسی لاؤ کِپ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پانچویں کمزور ترین کرنسی ہے۔ ایک امریکی ڈالر 8700 لاؤ کپ کے برابر ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ اس کرنسی کی قیمت میں کمی نہیں ہوئی بلکہ سن 1952 میں اسے کم قدر کے ساتھ ہی جاری کیا گیا تھا۔
4۔ جمہوریہ گنی کا فرانک
افریقی ملک جمہوریہ گنی کی کرنسی گنی فرانک ڈالر کے مقابلے میں دنیا کی چوتھی کمزور ترین کرنسی ہے۔ افراط زر اور خراب تر ہوتی معاشی صورت حال کے شکار اس ملک میں ایک امریکی ڈالر 9200 سے زائد گنی فرانک کے برابر ہے۔
تصویر: DW/B. Barry
3۔ انڈونیشین روپیہ
دنیا کے سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ملک انڈونیشیا کی کرنسی دنیا کی تیسری کمزور ترین کرنسی ہے۔ انڈونیشیا میں ایک روپے سے ایک لاکھ روپے تک کے نوٹ ہیں۔ ایک امریکی ڈالر 14500 روپے کے مساوی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ایک امریکی ڈالر کی کم از کم قیمت بھی آٹھ ہزار روپے سے زیادہ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Zuma Press/I. Damanik
2۔ ویتنامی ڈانگ
دنیا کی دوسری سب سے کمزور ترین کرنسی ویتنام کی ہے۔ اس وقت 23377 ویتنامی ڈانگ کے بدلے ایک امریکی ڈالر ملتا ہے۔ بیس برس قبل سن 1999 میں ایک امریکی ڈالر میں پندرہ ہزار سے زائد ویتنامی ڈانگ ملتے تھے۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ بہتر پالیسیاں اختیار کرنے کے سبب ویتنامی ڈانگ مستقبل قریب میں مستحکم ہو جائے گا۔
تصویر: AP
1۔ ایرانی ریال
سخت امریکی پابندیوں کا سامنا کرنے والے ملک ایران کی کرنسی اس وقت دنیا کی سب سے کمزور کرنسی ہے۔ اس وقت ایک امریکی ڈالر 42100 ایرانی ریال کے برابر ہے۔ سن 1999 میں امریکی ڈالر میں 1900 ایرانی ریال مل رہے تھے۔ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ڈالر کے مقابلے میں کم ترین اور زیادہ ترین ایکسچینج ریٹ میں 2100 فیصد تبدیلی دیکھی گئی۔
تصویر: tejaratnews
12 تصاویر1 | 12
دو درجن سے زائد یہ تمام اہلکار ایرانی مرکزی بینک کے وہی عہدیدار تھے، جنہوں نے حکومت کے منظور شدہ ایرانی درآمد کنندگان کو زر مبادلہ کی صورت میں ایسی رقوم کی ادائیگی کی منظوری دی تھی۔
دوہری شرح تبادلہ
ماہرین کے مطابق ان واقعات کے خود ایرانی حکام کے مطابق بھی ناقابل فہم ہونے کی وجہ صرف یہی نہیں ہے کہ ایران میں زر مبادلہ کی شرح کا نظام بہت پیچیدہ ہے۔ حکومت قومی بجٹ کے لیے تقریباﹰ چالیس فیصد تک مالی وسائل زر مبادلہ کی صورت میں ہونے والی اس آمدنی سے مہیا کرتی ہے، جو اکثر امریکی ڈالر میں کی جاتی ہے۔ وہ اس آمدنی کو ملکی منڈی میں ڈالر سے ایرانی ریال میں تبدیل کراتی ہے اور یوں ریاستی ڈھانچے کو فعال رکھنے کے لیے وسائل تقسیم کیے جاتے ہیں۔
ایران میں زر مبادلہ کی شرح دو طرح کی ہوتی ہے: ایک سرکاری جس کے لیے ریاست سبسڈی دیتی ہے اور جو بہت سستی ہوتی ہے۔ اس شرح کے مطابق ایک ڈالر تقریباﹰ بیالیس ہزار ریال کے برابر بنتا ہے۔ یہ سہولت صرف ایسے گنے چنے افراد یا اداروں کو ہی حاصل ہوتی ہے، جنہیں حکومت کی طرف سے ادویات اور خام صنعتی مال کی درآمد کی اجازت دی گئی ہوتی ہے۔
سب سے زیادہ سزائے موت کن ممالک میں؟
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2017 کے دوران عالمی سطح پر قریب ایک ہزار افراد کو سنائی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا۔ سزائے موت کے فیصلوں اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے کون سے ملک سرفہرست رہے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۱۔ چین
چین میں سزائے موت سے متعلق اعداد و شمار ریاستی سطح پر راز میں رکھے جاتے ہیں۔ تاہم ایمنسٹی کے مطابق سن 2017 میں بھی چین میں ہزاروں افراد کی موت کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
۲۔ ایران
ایران میں ہر برس سینکڑوں افراد کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے، جن میں سے زیادہ تر افراد قتل یا منشیات فروشی کے مجرم ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس ایران میں پانچ سو سے زائد افراد سزائے موت کے بعد جان سے گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل تاہم یہ نہیں جان پائی کہ اس برس کتنے ایرانیوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/epa/S. Lecocq
۳۔ سعودی عرب
ایران کے حریف ملک سعودی عرب اس حوالے سے تیسرے نمبر پر رہا۔ سن 2017 کے دوران سعودی عرب نے 146 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا۔
تصویر: Nureldine/AFP/Getty Images
۴۔ عراق
چوتھے نمبر پر مشرق وسطیٰ ہی کا ملک عراق رہا جہاں گزشتہ برس سوا سو سے زائد افراد کو موت کی سزا دے دی گئی۔ عراق میں ایسے زیادہ تر افراد کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت موت کی سزا دی گئی تھی۔ ان کے علاوہ 65 افراد کو عدالتوں نے موت کی سزا بھی سنائی، جن پر سال کے اختتام تک عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
۵۔ پاکستان
پاکستان نے گزشتہ برس ساٹھ سے زائد افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 31 فیصد کم ہے۔ سن 2017 میں پاکستانی عدالتوں نے دو سو سے زائد افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ سات ہزار سے زائد افراد کے خلاف ایسے مقدمات عدالتوں میں چل رہے تھے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۶۔ مصر
مصر میں اس عرصے میں پینتیس سے زیادہ افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: Reuters
۷ صومالیہ
ایمنسٹی کے مطابق صومالیہ میں گزشتہ برس عدالتوں کی جانب سے سنائے گئے سزائے موت کے فیصلوں میں تو کمی آئی لیکن اس کے ساتھ سزائے موت پر عمل درآمد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ سن 2017 میں مجموعی طور پر 24 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/epa/J. Jalali
۸۔ امریکا
آٹھویں نمبر پر امریکا رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ ریاستوں میں 23 افراد کو سزائے موت دے دی گئی، جب کہ پندرہ ریاستوں میں عدالتوں نے 41 افراد کو سزائے موت دینے کے فیصلے سنائے۔ امریکا میں اس دوران سزائے موت کے زیر سماعت مقدموں کی تعداد ستائیس سو سے زائد رہی۔
تصویر: imago/blickwinkel
۹۔ اردن
مشرق وسطیٰ ہی کے ایک اور ملک اردن نے بھی گزشتہ برس پندرہ افراد کی سزائے موت کے فیصلوں پر عمل درآمد کر دیا۔ اس دوران مزید دس افراد کو موت کی سزا سنائی گئی جب کہ دس سے زائد افراد کو ایسے مقدموں کا سامنا رہا، جن میں ممکنہ طور پر سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
تصویر: vkara - Fotolia.com
۱۰۔ سنگاپور
دسویں نمبر پر سنگاپور رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ افراد موت کی سزا کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سن 2017 میں سنگاپور کی عدالتوں نے پندرہ افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ اس دوران ایسے چالیس سے زائد مقدمے عدالتوں میں زیر سماعت رہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Tsuno
10 تصاویر1 | 10
دوسری شرح تبادلہ کھلی منڈی میں غیر ملکی کرنسی کا وہ مقامی کاروبار ہے، جہاں عام لوگ مالیاتی لین دین کرتے ہیں اور جو بہت مہنگی ہوتی ہے۔ اس اوپن مارکیٹ میں صارفین کو ایک امریکی ڈالر کے لیے تین گنا سے بھی زیادہ قیمت ادا کرنا پڑتی ہے اور ایک ڈالر تقریباﹰ ایک لاکھ پچپن ہزار ریال میں فروخت کیا جاتا ہے۔
'غائب ہو جانے والے‘ اربوں ڈالر کن کو دیے گئے؟
یہ بات اب تک واضح ہو چکی ہے کہ جن تقریباﹰ پانچ بلین ڈالر کے غائب ہو جانے کا حکام دعویٰ کر رہے ہیں، وہ ایسے درآمد کنندگان کو دیے گئے تھے، جنہیں کم قیمت پر زر مبادلہ فروخت کیا جاتا ہے۔ یہ افراد ایران کے موجودہ سیاسی نظام کے مخلص حامی سمجھے جاتے ہیں اور ان کا شمار آپس میں بہت ہی مربوط کاروباری حلقوں میں ہوتا ہے۔
یہی وہ کاروباری افراد اور ادارے ہیں، جنہیں صدر حسن روحانی نے 'اہم کاروباری شخصیات‘ قرار دیا تھا۔ حکومتی حلقوں میں ان کے بہت اہم سمجھے جانے کی وجوہات میں یہ بھی شامل ہے کہ یہی عناصر ایران کے امریکی پابندیوں کے اثرات سے بچ نکلنے کے عمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
شبنم فان ہائن (م م، ع ا)
ایرانی اسلامی انقلاب کے چالیس برس
سید روح اللہ موسوی خمینی کی قیادت میں مذہبی رہنماؤں نے ٹھیک چالیس برس قبل ایران کا اقتدار سنبھال لیا تھا۔ تب مغرب نواز شاہ کے خلاف عوامی غصے نے خمینی کا سیاسی راستہ آسان کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
احساسات سے عاری
خمینی یکم فروری سن 1979 کو اپنی جلا وطنی ختم کر کے فرانس سے تہران پہنچے تھے۔ تب ایک صحافی نے ان سے دریافت کیا کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو اس مذہبی رہنما کا جواب تھا، ’’کچھ نہیں۔ مجھے کچھ محسوس نہیں ہو رہا‘۔ کچھ مبصرین کے مطابق خمینی نے ایسا اس لیے کہا کیونکہ وہ ایک ’روحانی مشن‘ پر تھے، جہاں جذبات بے معنی ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
شاہ کی بے بسی
خمینی کے وطن واپس پہنچنے سے دو ماہ قبل ایران میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہو چکے تھے۔ مختلف شہروں میں تقریبا نو ملین افراد سڑکوں پر نکلے۔ یہ مظاہرے پرامن رہے۔ تب شاہ محمد رضا پہلوی کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ خمینی کی واپسی کو نہیں روک سکتے اور ان کی حکمرانی کا وقت ختم ہو چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
خواتین بھی آگے آگے
ایران میں انقلاب کی خواہش اتنی زیادہ تھی کہ خواتین بھی خمینی کی واپسی کے لیے پرجوش تھیں۔ وہ بھول گئی تھیں کہ جلا وطنی کے دوران ہی خمینی نے خواتین کی آزادی کی خاطر اٹھائے جانے والے شاہ کے اقدامات کو مسترد کر دیا تھا۔ سن 1963 میں ایران کے شاہ نے ہی خواتین کو ووٹ کا حق دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/IMAGNO/Votava
’بادشاہت غیر اسلامی‘
سن 1971 میں شاہ اور ان کی اہلیہ فرح دیبا (تصویر میں) نے ’تخت جمشید‘ میں شاہی کھنڈرات کے قدیمی مقام پر ایران میں بادشاہت کے ڈھائی ہزار سال کی سالگرہ کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ تب خمینی نے اپنے ایک بیان میں بادشاہت کو ’ظالم، بد اور غیر اسلامی‘ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture alliance/akg-images/H. Vassal
جلا وطنی اور آخری سفر
اسلامی انقلاب کے دباؤ کی وجہ سے شاہ چھ جنوری سن 1979 کو ایران چھوڑ گئے۔ مختلف ممالک میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے کے بعد سرطان میں مبتلا شاہ ستائیس جنوری سن 1980 کو مصری دارالحکومت قاہرہ میں انتقال کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
طاقت پر قبضہ
ایران میں اسلامی انقلاب کے فوری بعد نئی شیعہ حکومت کے لیے خواتین کے حقوق مسئلہ نہیں تھے۔ ابتدا میں خمینی نے صرف سخت گیر اسلامی قوانین کا نفاذ کرنا شروع کیا۔
تصویر: Tasnim
’فوج بھی باغی ہو گئی‘
سن 1979 میں جب خمینی واپس ایران پہنچے تو ملکی فوج نے بھی مظاہرین کو نہ روکا۔ گیارہ فروری کو فوجی سربراہ نے اس فوج کو غیرجانبدار قرار دے دیا تھا۔ اس کے باوجود انقلابیوں نے فروری اور اپریل میں کئی فوجی جرنلوں کو ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPU
نئی اسلامی حکومت
ایران واپسی پر خمینی نے بادشات، حکومت اور پارلیمان کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ تب انہوں نے کہا تھا کہ وہ ایک نئی حکومت نامزد کریں گے کیونکہ عوام ان پر یقین رکھتے ہیں۔ ایرانی امور کے ماہرین کے مطابق اس وقت یہ خمینی کی خود التباسی نہیں بلکہ ایک حقیقت تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/FY
انقلاب کا لبرل رخ
اسکالر اور جمہوریت نواز سرگرم کارکن مہدی بازرگان شاہ حکومت کے خلاف چلنے والی عوامی تحریک میں آگے آگے تھے۔ خمینی نے انہیں اپنا پہلا وزیر اعظم منتخب کیا۔ تاہم بازرگان اصل میں خمینی کے بھی مخالف تھے۔ بازرگان نے پیرس میں خمینی سے ملاقات کے بعد انہیں ’پگڑی والا بادشاہ‘ قرار دیا تھا۔ وہ صرف نو ماہ ہی وزیرا عظم رہے۔
تصویر: Iranian.com
امریکی سفارتخانے پر قبضہ
نومبر سن 1979 میں ’انقلابی طالب علموں‘ نے تہران میں قائم امریکی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا اور اس پر قبضہ کر لیا تھا۔ تب سفارتی عملے کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ یہ انقلابی خوفزدہ تھے کہ امریکا کی مدد سے شاہ واپس آ سکتے ہیں۔ خمینی نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور اپنے مخالفین کو ’امریکی اتحادی‘ قرار دے دیا۔
تصویر: Fars
خمینی کا انتقال
کینسر میں مبتلا خمینی تین جون سن 1989 میں چھیاسی برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ان کو تہران میں واقع بہشت زہرہ نامی قبرستان میں دفن کیا گیا۔ ان کی آخری رسومات میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
تصویر: tarikhirani.ir
علی خامنہ ای: انقلاب کے رکھوالے
تین جون سن 1989 میں سپریم لیڈر خمینی کے انتقال کے بعد علی خامنہ ای کو نیا رہنما چنا گیا۔ انہتر سالہ خامنہ ای اس وقت ایران میں سب سے زیادہ طاقتور شخصیت ہیں اور تمام ریاستی ادارے ان کے تابع ہیں۔