ایران میں زیر حراست جرمن شہریوں کا ’اعتراف جرم‘: تہران کا دعویٰ
15 اکتوبر 2010ایران کی سرکاری خبر ایجنسی اِرنا نے پبلک پروسیکیوٹر غلام حسین محسنی کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے آج جمعہ کو بتایا کہ ان دونوں جرمن باشندوں نے غیر قانونی جنسی تعلقات کے الزام میں سنگساری کے ذریعے موت کی سزا پانے والی ایرانی خاتون سکینہ محمدی آشتیانی کے بیٹے سے بلا اجازت انٹرویو کرنے کے سلسلے میں اپنے قصور وار ہونے کا اعتراف کر لیا ہے۔
ایرانی حکام کے مطابق یہ دونوں جرمن شہری مبینہ طور پر بیرون ملک فعال ایران میں اسلامی انقلاب کے مخالفین کے ساتھ اشتراک عمل سے ایران آئے تھے اور وہ یہ انٹرویو کرنے کے لئے خاص طور پر تبریز گئے، حالانکہ انہوں نے اس کی اجازت بھی نہیں لی تھی۔
تہران میں سرکاری حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ دونوں غیر ملکی صحافیوں کی حثیت میں نہیں بلکہ عام سیاحوں کو جاری کئے جانے والے ویزے لے کر ایران آئے تھے اور پھر اپنے صحافی ہونے کا کوئی ثبوت پیش کئے بغیر انہوں نے آشتیانی کے خاندان سے رابطہ کر کے اس کے بیٹے کا انٹرویو کیا تھا، جو ایران میں مروجہ قوانین کی رو سے ایک جرم ہے۔
وفاقی جرمن وزیر خارجہ گیڈو ويسٹر ويلے نے اسی ہفتے یہ تصدیق کر دی تھی کہ ایران میں گرفتار کئے جانے والے یہ دونوں غیر ملکی جرمن شہری ہیں اور برلن حکومت ان کی جلد از جلد رہائی کے لئے ہرممکن کوششیں کر رہی ہے۔ اس موقع پر ویسٹر ویلے نے کہا تھا: ’’ہم ان دونوں جرمن باشندوں کو رہا کرا کے جلد ازجلد واپس جرمنی لانے کے لئے تمام ترسفارتی سطحوں پر کام کر رہے ہیں۔‘‘
سکینہ محمدی آشتیانی کو سال 2006 میں ایرانی شہر تبریز کی دو عدالتوں نے دو مختلف مقدمات میں سزائے موت سنائی تھی۔ اپنے شوہر کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں اس خاتون کو سنائی گئی پھانسی کی پہلی سزا 2007 میں کی گئی ایک اپیل پر 10 سالہ قید میں تبدیل کر دی گئی تھی۔ البتہ آشتیانی کو سنگسار کئے جانے کی دوسری سزا اسے اپنے شوہر کو قتل کرنے والے شخص کے ساتھ جنسی تعلقات کے باعث سنائی گئی تھی، جس پر عملدرآمد شدید بین الاقوامی احتجاج کے بعد معطل کر دیا گیا تھا۔
رپورٹ: سمن جعفری
ادارت: مقبول ملک