1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں شرح پیدائش میں کمی پر رہنما پریشان

30 جولائی 2020

سن 1980 کی دہائی میں ایران میں شرحِ پیدائش غیر معمولی طور پر بلند تھا۔ حالیہ برسوں میں اس میں اتنی کمی واقع ہوئی کہ ملکی رہنماؤں نے اس پر پریشانی کا اظہار شروع کر دیا ہے۔

Iran - Geburt von Fünflinge in Shiraz
تصویر: MIZAN

سن 1979 کا ایران مشرقِ وسطیٰ میں ایک بڑی آبادی کا ملک تھا۔ اسلامی انقلاب کے بعد ایرانی شیعہ علماء اس کثیر آبادی کے تناظر میں اپنے ملک کو ایک طاقتور شیعہ ریاست خیال کرتے تھے جو خلیج فارس اور خطے میں اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کی اہل تھی۔

اسلامی انقلاب کے کچھ ہی مہینوں بعد ایران کو سن 1980 کی دہائی میں عراق کے ساتھ خونی جنگ کا سامنا رہا۔ اس جنگ کے دوران بھی ایرانی مذہبی رہنما ملکی خواتین کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی تلقین کرتے رہے تھے۔ اسی دہائی میں ایرانی شرح پیدائش حیران کن انداز میں زیادہ رہا تھا۔ یہ شرح فی عورت5.1 تھی، تاہم اب  فی خاتون بچوں کی پیدائش کی شرح 1.7 ہو چکی ہے۔

نوجوان نسل کی بچے پیدا کرنے میں دلچسپی کم ہو چکی ہے۔ ایک ایرانی خاتون سارہ واضح طور پر کہتی ہیں کہ وہ بچہ پیدا کرنے کی خواہش نہیں رکھتی۔ اڑتیس سالہ سارہ کا ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہنا ہے کہ بچہ پیدا کرنا اور اس کی مناسب تربیت ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے اور وہ ابھی روزانہ کی زندگی کے چیلنجز کا پوری طرح سامنا نہیں کر پا رہی ہیں۔ سارہ جیسی سوچ کی بے شمار ایرانی خواتین ہیں اور وہ زندگی میں مسابقتی عمل کو زیادہ اہم خیال کرتی ہیں۔

ملکی رہنماؤں کو شرحِ پیدائش میں کمی پر پریشانی لاحق ہو گئی ہے۔ حتیٰ کہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے بھی اس معاملے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے خاندانی منصوبہ بندی کی تعلیم اور مانع حمل سروسز کے لیے مختص رقوم کی فراہمی منسوخ کر دی ہے۔ انہوں نے ملکی شرح پیدائش میں اضافے کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔ خامنہ ای کی خواہش ہے کہ ایران کی آبادی ایک سو پچاس ملین تک پہنچ جائے۔

سن 1979 میں ایران سینتیس ملین نفوس کا ملک تھا۔ ایرانی انقلابی رہنما خاندانی منصوبہ بندی کو پوری طرح مسترد کرنے کا پرچار بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ اب اکتالیس برس گزرنے کے بعد ایران کی آبادی چوراسی ملین ہے۔ ایرانی انقلاب کے بانی اور سپریم لیڈر امام خمینی نے سن 1988 میں خاندانی منصوبہ بندی کو اسلامی مذہبی ضوابط کے مطابق قرار دیتے ہوئے ایک جدید پروگرام متعارف کرایا تھا۔

سارہ کا کہنا ہے کہ اس وقت ایران کی بڑی آبادی کے بوجھ سے تعلیمی نظام کی بنیادیں کمزور ہو چکی ہیں اور اس کی عمارت کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ کنڈر گارٹن میں چھوٹے بچوں کے لیے جگہ نہیں اور اسکولوں پر طلبہ کا بوجھ بڑھ چکا ہے، اسی باعث شفٹوں کا نظام متعارف کرایا گیا ہے۔

خاندانی منصوبہ بندی کے ماہرین سارہ کے خیالات سے متفق ہیں۔ سارہ تو یہ بھی کہتی ہے کہ ابھی تو بگاڑ پیدا ہونے کی ابتداء ہے، جب آبادی مزید بڑھے گی تو صورت حال اور خراب ہو گی۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ زیادہ آبادی کو روزگار کی فراہمی، بہتر تعلیم اور مناسب سماجی ماحول کیسے ممکن ہو گا اور ایسے حالات میں جب ایران کو شدید اقتصادی مشکلات کا سامنا ہے۔

شبنم فان ہائن، ع ح / ع ت

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں