ایران میں صدارتی الیکشن، ’روحانی آگے‘
19 مئی 2017ایرانی ٹیلی وژن پر دکھائے جانے والے مناظر میں ایران کے مختلف شہروں میں قائم پولنگ اسٹیشنوں پر بڑی تعداد میں لوگوں کو قطاروں میں کھڑے دیکھا جا سکتا ہے۔ آج کے صدارتی انتخاب میں ایران کی 80 ملین سے زائد کی آبادی میں سے 56 ملین کے قریب شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے اہل ہیں۔
تہران میں ووٹ ڈالنے کے بعد ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے عوام کو تلقین کی ہے کہ وہ ہر قیمت پر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں کیونکہ ملک کا مقدر عوام کے ہاتھ میں ہے۔ صدارتی الیکشن کے لیے ووٹ مقامی وقت کے مطابق شام چھ بجے تک ڈالے جا سکیں گے۔
ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی تقریباً نصف شب کے قریب شروع ہو گی اور انتخابی نتائج اگلے چوبیس گھنٹوں میں عام کر دیے جائیں گے۔ ایران میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں غیر متوقع طور پر صدر حسن روحانی کو اپنے حریف امیدوار ابراہیم رئیسی کی طرف سے سخت مقابلے کا سامنا ہے۔
خیال کیا جاتا ہے کہ رئیسی کو ایران کے طاقتور پاسداران انقلاب کی حمایت بھی حاصل ہے۔ اسی وجہ سے صدر روحانی نےپاسداران انقلاب کو الیکشن میں مداخلت نہ کرنے کا کہا ہے۔ ایسے بھی شکوک کا اظہار کیا جاتا ہے کہ سن 2009ء میں پاسداران انقلاب نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے احمدی نژاد کے حق میں نتائج تبدیل کیے تھے۔
یہ انتخابات کوئی بھی جیتے ایران کی خارجہ پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی واقع ہونے کی توقع کم ہی ہے۔ رئیسی نے بھی کہا ہے کہ وہ جوہری ڈیل ختم نہیں کریں گے لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ روحانی نے مغرب پر بہت زیادہ بھروسہ کیا ہے۔
چھپن سالہ رئیسی کا ٹیلی وژن پر ہونے والے مباحثے میں کہنا تھا، ’’ہمیں دشمنوں کے سامنے اپنی کمزوریوں کا ذکر نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ دوسری جانب 68 سالہ مذہبی رہنما روحانی نے اس صدارتی انتخاب کو ’زیادہ شہری آزادیوں‘ اور ’شدت پسندی‘ کے مابین فیصلہ قرار دیا ہے۔
غیرسرکاری عوامی جائزوں کے مطابق ابھی تک صدر حسن روحانی کو اپنے حریف امیدوار رئیسی پر سبقت حاصل ہے اور روحانی یہ انتخاب جیت سکتے ہیں۔ لیکن انہیں اندازوں سے کہیں زیادہ سخت مقابلے کا سامنا ہے کیوں کہ ان کے مخالف امیدوار کا کہنا ہے کہ روحانی کی سفارتی کوششوں سے نہ تو بے روزگاری میں کمی واقع ہوئی ہے اور نہ ہی غربت میں۔
رئیسی ایران میں پس پردہ کام کرتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے رواں سال کے آغاز تک انہیں کم ہی لوگ جانتے تھے۔ رئیسی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے سابق طالب علم اور ایک قریبی اتحادی بھی ہیں۔ اس لیے انہیں طاقتور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ ترین امیدوار کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔