ایرانی حکام نے ایک فرانسیسی سیاح پرجاسوسی اور پروپیگنڈہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے مقدمہ چلانے کا اعلا ن کیا ہے۔ ان کی بہن نے فرانسیسی صدر سے اس معاملے میں مداخلت کی اپیل کی ہے۔
اشتہار
فرانسیسی سیاح بنجامن برائری کے وکیل نے اتوار کے روز بتایا کہ ایرانی حکام نے فرانسیسی شہری پر اسلامی جمہوریہ کے خلاف جاسوسی اور پروپیگنڈہ کرنے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
ایران اور مغرب کے مابین جاری کشیدگی میں اضافہ کے درمیان بنجامن برائری بھی ان غیر ملکی شہریوں کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں جنہیں اسلامی جمہوریہ کے خلاف مبینہ طور پرجاسوسی کے الزام میں تہران نے گرفتار کیا ہے۔
برائری کو ”دھرتی پر بدعنوانی" جوایرانی قانون کے تحت سنگین الزامات میں سے ایک ہے اور شراب نوشی کے الزام کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ ان کے وکیل سعید دہقان نے ٹوئٹر پر لکھا کہ تفتیش کے بعد یہ دونوں الزامات مسترد کر دیے گئے۔
مشہد کے محکمہ انصاف نے برائری کو جاسوسی کا قصوروار قرار دیا ہے۔
برائری کی بہن نے فرانسیسی ہفت روزہ لی پوائنٹ میں شائع ایک کھلے خط میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں سے اس معاملے میں مداخلت کرنے کی اپیل کی ہے۔
فرانسیسی وزارت خارجہ نے اتوار کے روز کہا کہ یہ الزامات ”ناقابل فہم‘‘ ہیں۔
بینجمن برائری کے خلاف کیا کیس ہے؟
گزشتہ برس مئی میں برائری کو اس وقت گرفتار کر لیا گیا تھا جب وہ ایک ریگستانی علاقے میں جہاں تصویر اتارنا ممنوع ہے، ڈرون اڑا کر تصویریں لے رہے تھے۔
ایرانی قانون کے تحت جاسوسی کا قصور وار پائے جانے پر دس برس تک قید کی سزا ہے۔ اسلامی جمہوریہ کے نظام کے خلاف پروپیگنڈہ پھیلانے کے جرم میں تین ماہ سے ایک برس تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
برائری کی بہن نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ یہ الزامات 'بے بنیاد‘ ہیں اور ان کا بھائی مغربی ملکوں کے ساتھ ایران کی بات چیت میں ایک ’مذاکراتی آلہ‘ بن گیا ہے۔
کیا ایران غیرملکی قیدیوں کو مغرب پر دباو ڈالنے کے لیے استعمال کرتا ہے؟
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے ایران جوہری معاہدے سے امریکا کے الگ ہوجانے اور ایران کے خلاف سخت پابندیوں کے اعلان کے بعد سے ایران میں غیر ملکیوں کی گرفتاریوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔
انسانی حقوق کے گروپوں کا الزام ہے کہ ایران غیر ملکی قیدیوں کو مغرب کے ساتھ سیاسی سودے بازی کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ گوکہ تہران ان الزامات کی تردید کرتا ہے تاہم ماضی میں قیدیوں کے تبادلے ہوتے رہے ہیں۔
عالمی طاقتوں کی جانب سے تہران کے ساتھ جوہری معاہدے کو بحال کرنے اور معاہدے کے تحت اسے اپنے وعدوں پر عمل کرنے کے لیے آمادہ کرنے کے خاطر اپریل سے ہی ویانا میں مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے۔ ایران کے مذاکرات کاروں کا کہنا ہے کہ تہران قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہے۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، اے پی)
ایرانی فیکڑی: جہاں پرچم صرف جلانے کے لیے بنائے جاتے ہیں
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران میں غیر ملکی پرچم تیار کرنے والی سب سے بڑی فیکڑی کا کاروبار تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔ اس فیکڑی میں امریکی، برطانوی اور اسرائیلی پرچم صرف اس لیے تیار کیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مظاہروں کے دوران جلایا جا سکے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
یہ فیکڑی ایرانی دارالحکومت تہران کے جنوب مغربی شہر خمین میں واقع ہے، جہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ایسے جھنڈے پرنٹ کرتے ہیں اور پھر سوکھنے کے لیے انہیں لٹکا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
احتجاجی مظاہروں کے دنوں میں اس فیکڑی میں ماہانہ بنیادوں پر تقریبا دو ہزار امریکی اور اسرائیلی پرچم تیار کیے جاتے ہیں۔ سالانہ بنیادوں پر پندرہ لاکھ مربع فٹ رقبے کے برابر کپڑے کے جھنڈے تیار کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکا اور ایران کے مابین پائی جانے والی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور اس وجہ سے آج کل ایران میں امریکا مخالف مظاہروں میں بھی شدت پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت کے حمایت یافتہ مظاہروں میں امریکا، اسرائیل اور برطانیہ کے جھنڈے بھی تواتر سے جلائے جا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دیبا پرچم نامی فیکڑی کے مالک قاسم کنجانی کا نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہمارا امریکی اور برطانوی شہریوں سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کی حکومتوں سے ہے۔ ہمارا مسئلہ ان کے صدور سے ہے، ان کی غلط پالیسیوں سے ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
ایران مخالف ممالک کے جب پرچم نذر آتش کیے جاتے ہیں تو دوسرے ممالک کے عوام کیسا محسوس کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس فیکڑی کے مالک کا کہنا تھا، ’’اسرائیل اور امریکا کے شہری جانتے ہیں کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اگر لوگ مختلف احتجاجی مظاہروں میں ان ممالک کے پرچم جلاتے ہیں تو وہ صرف اپنا احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہوتے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
رضائی اس فیکڑی میں کوالٹی کنٹرول مینیجر ہیں۔ انہوں نے اپنا مکمل نام بتانے سے گریز کیا لیکن ان کا کہنا تھا، ’’ امریکا کی ظالمانہ کارروائیوں کے مقابلے میں، جیسے کہ جنرل سلیمانی کا قتل، یہ جھنڈے جلانا وہ کم سے کم ردعمل ہے، جو دیا جا سکتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق انقلاب ایران میں امریکا مخالف جذبات کو ہمیشہ سے ہی مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔ ایرانی مذہبی قیادت انقلاب ایران کے بعد سے امریکا کا موازنہ سب سے بڑے شیطان سے کرتی آئی ہے۔
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
دوسری جانب اب ایران میں صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ گزشتہ نومبر میں ایران میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران یہ نعرے بھی لگائے گئے کہ ’’ہمارا دشمن امریکا نہیں ہے، بلکہ ہمارا دشمن یہاں ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/WANA/N. Tabatabaee
حال ہیں میں تہران میں احتجاج کے طور پر امریکی پرچم زمین پر رکھا گیا تھا لیکن ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ نوجوان مظاہرین اس پر پاؤں رکھنے سے گریز کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایرانی نوجوان پرچم جلانے کی سیاست سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں۔