ایران میں قید رہنے والے صحافی کے لیے 180ملین ڈالر زر تلافی
23 نومبر 2019
امریکا کی ایک وفاقی عدالت نے ایران میں تقریباﹰ ڈیڑھ سال تک زیر حراست رہنے والے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے ایک صحافی اور اس کے متاثرہ اہل خانہ کو تقریباﹰ ایک سو اسی ملین ڈالر زر تلافی ادا کیے جانے کا حکم سنایا ہے۔
اشتہار
متحدہ عرب امارات میں دبئی سے موصولہ رپورٹوں میں نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے بتایا ہے کہ اس امریکی صحافی کو ایران میں مبینہ جاسوسی کے الزام میں قید میں رکھا گیا تھا اور اس کی گرفتاری کی بین الاقوامی سطح پر شدید مذمت کی گئی تھی۔
اب اس صحافی کے 544 دن تک قید میں رکھے جانے اور اس پر کیے گئے تشدد کے خلاف ایک امریکی عدالت نے ایران کے خلاف اپنا فیصلہ سناتے ہوئے متاثرہ جرنلسٹ اور اس کے اہل خانہ کو ازالے کے طور پر تقریباﹰ 180 ملین ڈالر ادا کیے جانے کا فیصلہ سنا دیا ہے۔
تہران حکومت کے خلاف یہ مقدمہ جیسن رضائیان نامی صحافی نے دائر کیا تھا، جس پر جمعہ بائیس نومبر کو رات گئے فیصلہ واشنگٹن میں امریکا کی ایک فیڈرل ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج رچرڈ لیون نے سنایا۔
فیصلے کے مطابق ایرانی حکام رضائیان کو دوران حراست نیند سے محروم رکھنے، طبی سہولتیں مہیا نہ کرنے اور اس سے بدسلوکی کے مرتکب ہوئے تھے۔
جج لیون نے اپنے فیصلے میں مزید کہا، ''ایرانی حکام نے جیسن رضائیان کو گرفتار کیا، اسے قتل کرنے کی دھمکیاں دیں، اور ایسا اس لیے کیا کہ وہ امریکا پر دباؤ ڈالتے ہوئے واشنگٹن حکومت کو مجبور کر سکیں کہ وہ رضائیان کی ممکنہ آزادی کے بدلے ایرانی قیدیوں کو رہا کردیں۔‘‘ ایران کے امریکا کے ساتھ کوئی سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور تہران میں امریکا کے سفارتی مفادات کی نگرانی وہاں سوئٹزرلینڈ کا سفارت خانہ کرتا ہے۔
ایران میں سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارتی باہمت خواتین
آج کل بہت سی حوصلہ مند خواتین ایرانی جیلوں میں قید ہیں۔ ان میں حقوقِ انسانی کی علمبردار خواتین کے ساتھ ساتھ صحافی، فنکارائیں یا کسی بھی شعبے میں جدوجہد کرنے والی عام خواتین بھی شامل ہیں۔
تصویر: Iran-Emrooz/HRANA
نازنین زاغری - ریٹکلف
ایران اور برطانیہ کی دوہری شہریت کی حامل یہ خاتون تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی کارکن ہیں اور اپریل 2016ء سے جیل میں ہیں۔ وہ اپنی دو سالہ بیٹی کے ہمراہ ایران میں اپنے اہل خانہ کو ملنے کے لیے گئی تھیں۔ اُن پر الزام ہے کہ وہ دھیمے انداز میں ’اسلامی جمہوریہٴ ایران میں حکومت کا تختہ الٹنے‘ کی تیاریاں کر ر ہی تھیں۔ دنیا بھر کے صحافیوں کو تربیت فراہم کرنے والی فاؤنڈیشن نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
تصویر: Iran-Emrooz/HRANA
زہرہ رہ نورد
زہرہ رہ نورد اپوزیشن سیاستدان میر حسین موسوی کی اہلیہ ہیں۔ اُنہیں ایران کی معروف ترین خاتون سیاسی قیدی قرار دیا جا سکتا ہے۔ سن 2009ء کے متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد زہرہ رہ نورد نے، جو ایک پروفیسر ہیں، اپنے شوہر کی حمایت کی تھی۔ وہ مجسمہ ساز بھی ہیں اور امورِ سیاست کی ایک ممتاز محققہ بھی لیکن وہ فروری 2011ء سے اپنے شوہر کے ہمراہ کسی بھی فردِ جرم کے بغیر اپنے گھر میں نظر بند چلی آ رہی ہیں۔
تصویر: Getty Images
نرگس محمدی
یہ خاتون انسانی حقوق کے لیے سرگرم ہیں۔ اگرچہ اُن کی سرگرمیاں پُر امن تصور کی جاتی ہیں لیکن مئی 2016ء میں اُنہیں سولہ سال کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا۔ جون کے اواخر سے وہ بھوک ہڑتال پر چلی گئیں کیونکہ حکام اُنہیں اپنے جڑواں بچوں کے ساتھ فون پر بھی رابطہ نہیں کرنے دے رہے تھے۔ بیس روز کی بھوک ہڑتال کے بعد بالآخر اُنہیں ہفتے میں ایک بار اپنے بچوں کے ساتھ فون پر بات چیت کی اجازت دے دی گئی۔
تصویر: cshr.org
ہما ہودفر
کینیڈا اور ایران کی دوہری شہریت کی حامل ہما ہودفر ایک ماہرِ بشریات ہیں اور چھ جون 2015ء سے تہران کی بدنامِ زمانہ اوین جیل میں قید ہیں۔ یہ ممتاز محققہ گزشتہ سال فروری میں ایک نجی دورے پر ایران گئی تھیں۔ وہ ایرانی سیاست میں خواتین کے تاریخی کردار پر تحقیق کرنا چاہتی تھیں۔ اُن پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک ’نسوانی سازش‘ کو ہوا دی ہے۔
تصویر: irane emrooz
بہارہ ہدایت
اِس خاتون کو ایران میں طالب علموں اور خواتین کی تحریک کے درمیان رابطے کے حوالے سے مرکزی شخصیت گردانا جاتا ہے۔ اُنہیں 2010ء میں اپنی شادی کے کچھ ہی عرصے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا اور 9 سال کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا تھا۔ تب وہ طلبہ کی ایک تنظیم OCU (آفس فار کونسیلیڈیٹنگ یونٹی) کی سربراہ تھیں، جو ملک میں سیاسی اصلاحات کے لیے کوشاں تھی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف سرگرم تھی۔
تصویر: humanrights-ir.org
ریحانہ طباطبائی
سیاسی امور پر لکھنے والی اس صحافی خاتون کو کئی مرتبہ جیل جانا پڑا ہے۔ اس بار وہ جنوری 2016ء سے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اُن پر ریاست کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کا الزام ہے۔ ریحانہ طباطبائی کو ایک سال قید کا حکم سنایا گیا ہے اور اُن پر دو سال تک کے لیے اپنے شعبے میں کام کرنے کی پابندی لگا دی گئی ہے۔ انقلابی عدالت نے دو سال تک کے لیے اُنہیں کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے سے منع کر دیا ہے۔
تصویر: melliun.org
فریبہ کمال آبادی
آٹھ سال تک جیل میں رہنے کے بعد فریبہ کمال آبادی (دائیں سے تیسرے نمبر پر) اس سال مئی کے اوائل میں جیل سے چھٹیوں پر باہر آئیں۔ 2008ء تک وہ بہائی فرقے کی نمائندگی کرنے والی سرکردہ ترین خاتون تھیں۔ اُنہیں اپنے عقیدے کی وجہ سے بیس سال کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا تھا۔ جیل سے چھٹیوں کے دوران سابق صدر علی اکبر رفسنجانی کی بیٹی فائزہ ہاشمی کے ساتھ اُن کی ملاقات کو ’اسلام سے غداری‘ کے مترادف قرار دیا گیا۔
تصویر: jahannews
7 تصاویر1 | 7
اس مقدمے کے دائر کیے جانے کے بعد تہران میں سوئس سفارت خانے کے ذریعے ایرانی حکومت کو مطلع کر دیا گیا تھا مگر تہران میں حکام نے آج تک اس پر اپنے کسی بھی ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ اسی بارے میں آج ہفتہ تیئیس نومبر کو جب نیو یارک میں اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی، تو اس ایرانی سفارت کار نے بھی اے پی کی طرف سے سرکاری ردعمل کی درخواست کا کوئی جواب نہ دیا۔
جیسن رضائیان کے معاملے کی ایران میں ابتدا اس وقت ہوئی تھی، جب 2014ء میں انہیں اور ان کی اہلیہ یگانہ صالحی کو جان سے مار دینے کی دھمکی دے کر مسلح افراد نے اغواء کر لیا تھا۔ اس وقت رضائیان واشنگٹن پوسٹ کے لیے کام کر رہے تھے اور ان کے پاس ایران میں رہنے اور کام کرنے کا باقاعدہ سرکاری اجازت نامہ بھی تھا۔
اس کے باوجود ایرانی اہلکار انہیں گرفتار کر لے تہران کی ایک جیل میں لے گئے تھے، جہاں ان پر جاسوسی کے ایسے الزامات عائد کئے گئے تھے، جن کی تفصیلات آج تک سامنے نہیں آ سکیں۔ اس کے بعد ایک ایرانی عدالت نے بند کمرے میں ہونے والی سماعت کے بعد رضائیان کو سزائے قید سنا دی تھی۔ یہ مقدمہ ایران کے پاسداران انقلاب کے خلاف دائر کیا گیا تھا اور واشنگٹن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق یہ واضح نہیں ہے کہ ایران واقعی 180 ملین ڈالر کا یہ زر تلافی جیسن رضائیان اور ان کے اہل خانہ کو ادا کرے گا اور اگر ہاں تو کیسے؟
م م / ع ح (اے پی)
سب سے زیادہ سزائے موت کن ممالک میں؟
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2017 کے دوران عالمی سطح پر قریب ایک ہزار افراد کو سنائی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا۔ سزائے موت کے فیصلوں اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے کون سے ملک سرفہرست رہے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۱۔ چین
چین میں سزائے موت سے متعلق اعداد و شمار ریاستی سطح پر راز میں رکھے جاتے ہیں۔ تاہم ایمنسٹی کے مطابق سن 2017 میں بھی چین میں ہزاروں افراد کی موت کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
۲۔ ایران
ایران میں ہر برس سینکڑوں افراد کو موت کی سزا سنائی جاتی ہے، جن میں سے زیادہ تر افراد قتل یا منشیات فروشی کے مجرم ہوتے ہیں۔ گزشتہ برس ایران میں پانچ سو سے زائد افراد سزائے موت کے بعد جان سے گئے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل تاہم یہ نہیں جان پائی کہ اس برس کتنے ایرانیوں کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/epa/S. Lecocq
۳۔ سعودی عرب
ایران کے حریف ملک سعودی عرب اس حوالے سے تیسرے نمبر پر رہا۔ سن 2017 کے دوران سعودی عرب نے 146 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا۔
تصویر: Nureldine/AFP/Getty Images
۴۔ عراق
چوتھے نمبر پر مشرق وسطیٰ ہی کا ملک عراق رہا جہاں گزشتہ برس سوا سو سے زائد افراد کو موت کی سزا دے دی گئی۔ عراق میں ایسے زیادہ تر افراد کو دہشت گردی کے الزامات کے تحت موت کی سزا دی گئی تھی۔ ان کے علاوہ 65 افراد کو عدالتوں نے موت کی سزا بھی سنائی، جن پر سال کے اختتام تک عمل درآمد نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
۵۔ پاکستان
پاکستان نے گزشتہ برس ساٹھ سے زائد افراد کی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جو اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 31 فیصد کم ہے۔ سن 2017 میں پاکستانی عدالتوں نے دو سو سے زائد افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ سات ہزار سے زائد افراد کے خلاف ایسے مقدمات عدالتوں میں چل رہے تھے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/W. Steinberg
۶۔ مصر
مصر میں اس عرصے میں پینتیس سے زیادہ افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: Reuters
۷ صومالیہ
ایمنسٹی کے مطابق صومالیہ میں گزشتہ برس عدالتوں کی جانب سے سنائے گئے سزائے موت کے فیصلوں میں تو کمی آئی لیکن اس کے ساتھ سزائے موت پر عمل درآمد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ سن 2017 میں مجموعی طور پر 24 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا گیا۔
تصویر: picture alliance/dpa/epa/J. Jalali
۸۔ امریکا
آٹھویں نمبر پر امریکا رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ ریاستوں میں 23 افراد کو سزائے موت دے دی گئی، جب کہ پندرہ ریاستوں میں عدالتوں نے 41 افراد کو سزائے موت دینے کے فیصلے سنائے۔ امریکا میں اس دوران سزائے موت کے زیر سماعت مقدموں کی تعداد ستائیس سو سے زائد رہی۔
تصویر: imago/blickwinkel
۹۔ اردن
مشرق وسطیٰ ہی کے ایک اور ملک اردن نے بھی گزشتہ برس پندرہ افراد کی سزائے موت کے فیصلوں پر عمل درآمد کر دیا۔ اس دوران مزید دس افراد کو موت کی سزا سنائی گئی جب کہ دس سے زائد افراد کو ایسے مقدموں کا سامنا رہا، جن میں ممکنہ طور پر سزائے موت دی جا سکتی ہے۔
تصویر: vkara - Fotolia.com
۱۰۔ سنگاپور
دسویں نمبر پر سنگاپور رہا جہاں گزشتہ برس آٹھ افراد موت کی سزا کے باعث اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سن 2017 میں سنگاپور کی عدالتوں نے پندرہ افراد کو سزائے موت سنائی جب کہ اس دوران ایسے چالیس سے زائد مقدمے عدالتوں میں زیر سماعت رہے۔