ایران میں مذہبی اقلیتوں سے امتیازی سلوک ختم کیا جائے، جرمنی
31 مارچ 2021
وفاقی جرمن حکومت کے ایک سرکردہ اہلکار نے ایران میں مذہبی اقلیتوں سے امتیازی سلوک کی مذمت کرتے ہوئے اس کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس اہلکار کے مطابق ایران میں مذہب کی بنیاد پر شہریوں کے تعاقب کا سلسلہ بند کیا جانا چاہیے۔
اشتہار
دارالحکومت برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق وفاقی جرمن حکومت کے دنیا بھر میں مذہبی آزادی سے متعلقہ امور کے نگران عہدیدار مارکوس گرُوئبل نے آج بدھ کے روز کہا کہ ہر انسان کو یہ بنیادی حق حاصل ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اپنا مذہب کا انتخاب کر سکے اور اس پر عمل بھی کر سکے۔
اُنیس ویں صدی کے ایرانی فرمانروا ناصر الدین شاہ قاجار کی 80 سے بھی زائد بیویاں تھیں۔ اس بادشاہ کے حرم میں موجود ملکاؤں اور شہزادیوں کی تصاویر کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ اس وقت خوبصورتی کے معنی آج سے کس قدر مختلف تھے۔
تصویر: IICHS
تقریباﹰ تین ہزار سالہ طویل ایرانی بادشاہت کے امین ناصر الدین شاہ قاجار نے تقریباﹰ اڑتالیس برسوں تک ایران پر حکومت کی۔ جہاں پہلے تصویر کشی کا کام مصور سرانجام دیتے تھے، وہاں ناصر الدین شاہ قاجار نے حرم کے لیے ایک فوٹو گرافر مقرر کیا۔ ناصر الدین شاہ فوٹو گرافی کے بڑے شوقین تھے۔
تصویر: shafaf
ناصر الدین شاہ قاجار کی ایک بیوی تاج الدوله کی بیٹی شہزادی عصمت الدولہ (تصویر میں دائیں جانب) ایران میں پیانو بجانے والی پہلی خاتون تھیں۔ شاہ نے اپنے یورپ کے دورے پر پیانو دیکھا تھا اور پھر اسے اپنے یہاں منگوا لیا۔ تصویر میں نظر آنے والی چھوٹی بچی شہزادی عصمت الدولہ کی بیٹی فخر التاج ہے۔
تصویر: IICHS
ناصر الدین شاہ کو اپنی دو بیویاں تاج الدولہ اور انیس الدولہ بہت زیادہ عزیز تھیں۔ یہ تصویر شہزادی عصمت الدولہ کی ہے۔ شہزادی کے چہرے پر ہلکی مونچھیں نظر آ رہی ہیں کیونکہ اس زمانے میں چہرے پر سے بال ہٹانے کا رواج نہیں تھا۔
تصویر: IICHS
شاہ ناصر کے دور حکومت (1848ء تا 1896ء ) میں ان کےحرم میں کھینچی گئی تصاویر میں نظر آنے والی خواتین خوبصورتی کے آج کے معیار سے بالکل مختلف نظر آتی ہیں۔ یہ تصویر شہزادی تاج السلطنه کی ہے، جو شاہ کی ملکہ مریم توران السلطنه کی بیٹی ہیں۔ اس دور میں گھنی بھنویں اور ہلکی ہلکی مونچھیں خوبصورتی کی علامت ہوا کرتی تھیں اور انہیں سیاہ میک اپ کے ذریعے مزید ابھارا جاتا تھا۔
تصویر: IICHS
19 ویں صدی کے اس بادشاہ کے دور میں بچوں سے لے کر بڑوں تک کی تصاویر بنائی گئیں۔ اس تصویر میں ناصر الدین شاہ کی بیٹی عصمت الدولہ اور خاندان کے دیگر افراد کو دیکھا جا سکتا ہے۔ شاہ نے اپنے دربار میں دنیا کا پہلا باقاعدہ فوٹو اسٹوڈیو قائم کروایا۔ 1870ء کی دہائی میں شاہ نے ایک روسی فوٹو گرافر کو اپنے دربار کا سرکاری فوٹوگرافر مقرر کیا۔
تصویر: IICHS
اس تصویر میں خانم عمه بابا جان، خانم عصمت الملوک، عمو جان دیگر افراد کے ہمراہ نظر آ رہی ہیں۔ روسی فوٹو گرافر کو صرف شاہ اور ان کے مرد رشتہ داروں کی تصاویر لینے کی اجازت تھی لیکن حرم میں فوٹو گرافی صرف شاہ خود کرتے تھے۔ وہ ان تصاویر کو ڈیویلپ بھی خود کرتے تھے اور پھر تصاویر کو بڑے البموں میں محل کے اندر سجا کر رکھتے تھے۔
تصویر: IICHS
اُس دور میں شہزادیوں اور ملکاؤں کو پردے کا خاص اہتمام کروایا جاتا تھا۔ ایسے لباس صرف حرم میں ہی پہنے جا سکتے تھے اور ظاہر ہے ملک کے سب سے طاقتور شاہ ہی ایسی تصاویر بنانے کی ہمت کر سکتے تھے۔
تصویر: IICHS
حرم کی اس اندرونی تصویر سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کا حصہ بالکل الگ تھلگ تھا اور وہ آپس میں مل جل کر رہتی تھیں۔ اس تصویر میں یہ واضح نہیں ہے کہ خواتین کیا کر رہی ہیں لیکن تاریخ دانوں کے مطابق یہ کسی کھیل کا آغاز ہو سکتا ہے کیوں کہ حرم میں خواتین وقت گزارنے کے لیے مختلف کھیل بھی کھیلا کرتی تھیں۔
تصویر: IICHS
تصاویر میں شہزادیوں کے بھاری بھرکم جسم دیکھ کر لگتا ہے کہ تب ایسے ہی جسم خوبصورتی کی علامت تھے۔ خواتین چھوٹی اور کڑھائی والی سکرٹ پہنتی تھیں۔ ان کے علاوہ طویل کڑھائی والے فراک بھی شاہی خواتین کو بہت پسند تھے۔
تصویر: IICHS
کئی تصاویر ایسی بھی ہیں، جو شہزادیوں کی روز مرہ زندگی پر روشنی ڈالتی ہیں۔ اس تصویر میں ایک شہزادی کو درختوں سے انار اتار کر انہیں ایک جگہ ترتیب سے رکھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: IICHS
یہ تصویر عصمت الدولہ کی 1905ء میں وفات کے بعد لی گئی تھی۔ تب ملیریا لا علاج بیماری تھی اور اس شہزادی کی موت بھی اسی بیماری کی وجہ سے ہوئی تھی۔
تصویر: IICHS
آخری قطار میں دائیں جانب جہاں سوز مرزا کھڑے ہیں، درمیان میں یادالله مرزا اور بائیں جانب جہانگیر مرزا ہیں۔ دوسری قطار میں بائیں جانب بلقیس خانم ہیں (اہلیہ احمد مرزا معین الدوله)، مہر ارفع (اہلیہ احمد خان سرتیپ)، خانم تاج الدوله (اہلیہ ناصرالدین شاه)، جہاں بانو خانم (اہلیہ شاه شیر سوار) اور سب سے آگے جہان سلطان خانم ہیں، جو شمس الشعراء کی اہلیہ تھیں۔
تصویر: IICHS
اس تصویر میں عصمت الدولہ کی بیٹی عصمت الملوک کو اپنے خاوند مرزا حسن مستوفی الممالک کے ہمراہ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: IICHS
13 تصاویر1 | 13
چانسلر انگیلا میرکل کی قدامت پسند جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین سے تعلق رکھنے والے مارکوس گرُوئبل نے کہا کہ ایران میں صوفی مذہبی برادری اور بہائیوں کی حالت خاص طور پر باعث تشویش ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں صوفی، بہائی اور دیگر اقلیتی مذہبی برادریوں کے ارکان کا ان کے عقیدے کی وجہ سے تعاقب کیا جاتا ہے اور انہیں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔
گرفتار شدگان کی رہائی کا مطالبہ
اس جرمن حکومتی عہدیدار نے مطالبہ کیاکہ ایران میں ایسے تمام زیر حراست افراد کو فوری طور پر رہا کیا جانا چاہیے۔ مارکوس گرُوئبل کے بقول، ''میں یہی مطالبہ ایسے ایرانی شہریوں کے حوالے سے بھی کرتا ہوں، جنہیں تبدیلی مذہب کے بعد کوئی دوسرا عقیدہ اختیار کر لینے، مثلاﹰ مسیحی عقیدے کے پیروکار بن جانے کی وجہ سے تعاقب کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اکثر گرفتار کر لیا جاتا یے۔‘‘
عالمی سطح پر مذہبی آزادی کی صورت حال پر نظر رکھنے والے اس جرمن حکومتی عہدیدار نے یہ بھی کہا کہ ایران کے ساتھ بڑی طاقتوں کے ایٹمی معاہدے سے متعلق ہونے والی کسی بھی نئی بات چیت میں عالمی برداری کو ایران میں ایسے اقلیتی باشندوں کی صورت حال کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ تہران کے ساتھ کسی بھی نئے معاہدے کو واضح طور پر وہاں انسانی حقوق کے احترام کی صورت حال سے مشروط کیا جانا چاہیے۔
ایران میں صوفی اور بہائی برادریوں کی قانونی حیثیت
ایران میں مسیحیوں، یہودیوں اور زرتشتیوں کو تو باقاعدہ تسلیم شدہ مذہبی اقلیتوں کی حیثیت حاصل ہے، مگر اس حیثیت سے صوفی اور بہائی برادریوں کو محروم رکھا گیا ہے۔ ان مذہبی اقلیتی گروپوں کو شیعہ اکثریتی آبادی والے ایران میں 'بدعتی گروہ‘ قرار دے کر ان کا منظم انداز میں تعاقب کیا جاتا ہے۔
کل یکم اپریل جمعرات کے روز ایران میں صوفی مذہبی برادری کے ایک اہم رکن بہنام محجوبی کی پہلی برسی منائی جا رہی ہے۔ انہیں دو سال قبل تہران میں ایک مظاہرے کے دوران گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد انہیں دو سال قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔ محجوبی گزشتہ برس فروری میں دوران حراست انتقال کر گئے تھے۔
م م / ع ح (ای پی ڈی، کے این اے)
ایران میں یہودیوں کی مختصر تاریخ
ایرانی سرزمین پر بسنے والے یہودیوں کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ موجودہ زمانے میں ایران میں انقلاب اسلامی سے قبل وہاں آباد یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔
تصویر: gemeinfrei
ایرانی سرزمین پر بسنے والے یہودیوں کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے۔ کئی مؤرخین کا خیال ہے کہ شاہ بابل نبوکدنضر (بخت نصر) نے 598 قبل مسیح میں یروشلم فتح کیا تھا، جس کے بعد پہلی مرتبہ یہودی مذہب کے پیروکار ہجرت کر کے ایرانی سرزمین پر آباد ہوئے تھے۔
تصویر: gemeinfrei
539 قبل مسیح میں سائرس نے شاہ بابل کو شکست دی جس کے بعد بابل میں قید یہودی آزاد ہوئے، انہیں وطن واپس جانے کی بھی اجازت ملی اور سائرس نے انہیں اپنی بادشاہت یعنی ایرانی سلطنت میں آزادانہ طور پر اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت بھی دے دی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
سلطنت ایران کے بادشاہ سائرس اعظم کو یہودیوں کی مقدس کتاب میں بھی اچھے الفاظ میں یاد کیا گیا ہے۔ عہد نامہ قدیم میں سائرس کا تذکرہ موجود ہے۔
تصویر: gemeinfrei
موجودہ زمانے میں ایران میں انقلاب اسلامی سے قبل وہاں آباد یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔
تصویر: gemeinfrei
اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں بسنے والے یہودیوں کی تعداد مسلسل کم ہوتی گئی اور ہزارہا یہودی اسرائیل اور دوسرے ممالک کی جانب ہجرت کر گئے۔ ایران کے سرکاری ذرائع کے مطابق اس ملک میں آباد یہودیوں کی موجودہ تعداد قریب دس ہزار بنتی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
ایران میں یہودی مذہب کے پیروکاروں کی تاریخ کافی اتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔ یہ تصویر قریب ایک صدی قبل ایران میں بسنے والے ایک یہودی جوڑے کی شادی کے موقع پر لی گئی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
قریب ایک سو سال قبل ایران کے ایک یہودی خاندان کے مردوں کی چائے پیتے ہوئے لی گئی ایک تصویر
تصویر: gemeinfrei
تہران کے رہنے والے ایک یہودی خاندان کی یہ تصویر بھی ایک صدی سے زائد عرصہ قبل لی گئی تھی۔
تصویر: gemeinfrei
یہ تصویر تہران میں یہودیوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ کی ہے۔ ایرانی دارالحکومت میں یہودی عبادت گاہوں کی مجموعی تعداد بیس بنتی ہے۔
تصویر: DW/T. Tropper
دور حاضر کے ایران میں آباد یہودی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے شہریوں میں سے زیادہ تر کا تعلق یہودیت کے آرتھوڈوکس فرقے سے ہے۔