ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ پیر چار مئی سے ملک کے ایک بڑے حصے میں مساجد کو دوبارہ سے کھول دیا جائے گا۔ بتایا گیا ہے کہ ملک میں کورونا وائرس کی وبا پر کنٹرول کی وجہ سے یہ فیصلہ لیا گیا۔
اشتہار
ایرانی وزارت صحت کے ترجمان کیانوش جہاںپور کے مطابق پچھلے چوبیس گھنٹوں میں کووڈ انیس سے سینتالیس افراد ہلاک ہوئے ہیں اور یہ گزشتہ پچپن دنوں کے دوران اس بیماری سے ہونے والی سب سے کم ہلاکتیں ہیں۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ''یہ رجحان آنے والے دنوں میں بھی اسی طرح برقرار رہے گا۔‘‘
ان کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا، جب ملکی صدر حسن روحانی نے بتایا تھا کہ 132 اضلاع میں پیر چار مئی سے مساجد کھولنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ یہ ملکی انتظامی ڈویژن کا ایک تہائی بنتا ہے۔ صدر روحانی نے ٹیلی وژن پر اپنے خطاب میں کہا تھا کہ سماجی دوری اجتماعی نمازوں سے زیادہ ضروری ہے،''اسلام میں سلامتی اور حفاظت فرض ہے جبکہ مساجد میں نماز پڑھنا صرف تجویز کیا گیا ہے۔‘‘
مشرق وسطی کے خطے میں ایران کووڈ انیس سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے اور اسی وجہ سے اس ملک میں مساجد اور اہم مزارات مارچ کے اوائل سے بند ہیں۔ اس دوران ایران میں 'وائرس ٹاسک فورس‘ بھی بنائی گئی تھی، جو سولہ مئی سے سکول دوبارہ کھولنے پر بھی غور کر رہی ہے۔ ایران میں وسط جون سے گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہو جاتی ہیں اور اس طرح بچے ایک ماہ تک سکول جا سکیں گے۔
جہاںپوری کے بقول ملک میں اب تک 6203 افراد اس وائرس کے سبب ہلاک ہو چکے ہیں۔ ایران میں فروری کے وسط میں پہلی مرتبہ کسی شخص میں کورونا کی نشاندہی ہوئی تھی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں کووڈ انیس کے مزید 976 مریض سامنے آئے ہیں، جس کے ساتھ ایران میں اس بیماری سے متاثرہ افراد کی تعداد تقریبا 97,424 ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ 78,420 افراد بدستور زیر علاج ہیں، جن میں سے 2690 کی حالت نازک ہے۔
ایران میں اور بیرون ملک موجود ماہرین تاہم ایران کے کووڈ انیس سے متعلق اعداد و شمار پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق متاثرین کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
اتوار کو ہی پاسداران انقلاب ایران نے 'یوم القدس‘ کے موقع پر منعقد کی جانے والی سالانہ پریڈ منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے۔اس موقع پر اسرائیل کے خلاف احتجاج کیا جاتا ہے۔ فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر ایران میں 1979 ء کے انقلاب کے بعد ہر سال یہ دن رمضان کے آخری جمعے کو منایا جاتا ہے۔ اس سال 'یوم القدس‘ بائیس مئی کو منایا جانا تھا۔
پاک ایران سرحد پر قرنطینہ مراکز کی صورتحال
پاک ایران سرحدی علاقے تفتان میں امیگریشن گیٹ کے نزدیک قائم قرنطینہ مراکز میں 15سو سے زائد ایسے پاکستان زائرین اور دیگر شہریوں کو رکھا گیا ہے، جو ان ایرانی مقامات سے واپس لوٹے ہیں، جو کورونا وائرس سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
شکایات
پاکستانی شیعہ زائرین کی رہائش کے لیے مختص پاکستان ہاؤس میں بھی ایران سے واپس آنے والے سینکڑوں زائرین موجود ہیں۔ اس قرنطینہ سینٹر میں رکھے گئے افراد نے الزام عائد کیا ہے کہ پاکستان ہاؤس میں تمام زائرین کو احتیاطی تدابیر اختیار کیے بغیر رکھا جا رہا ہے۔ لوگوں کو یہ شکایت بھی ہے کہ قرنطینہ مراکز میں ڈبلیو ایچ او کے مطلوبہ معیار کے مطابق حفاظتی اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
کنٹینرز
پاک ایران سرحد پر قائم کیےگئے قرنطینہ مراکزمیں کنٹینرز بھی رکھے گئے ہیں۔ ان میں ایسے افراد کو رکھا جا رہا ہے، جن پرکورونا وائرس سے متاثر ہونے کا شبہ ظاہرکیا گیا ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
سرجیکل ماسک اور پاسپورٹ
ایران سے پاکستان واپس آنے والے زائرین کو ملک واپسی پر سرحد پر ہی سرجیکل ماسک فراہم کیے جا رہے ہیں۔ امیگریشن کے بعد انتظامیہ زائرین سے ان کے پاسپورٹ لے لیتی ہیں۔ یہ پاسپورٹ 14 روزہ قرنطینہ دورانیہ پورا ہونے کے بعد مسافروں کو واپس کیے جاتے ہیں۔ چند یوم قبل کوئٹہ کے شیخ زید اسپتال میں قائم آئسولیشن وارڈ میں تعینات طبی عملے کو جوسرجیکل ماسک فراہم کیے گئے تھے، وہ بھی زائدالمیعاد تھے۔
تصویر: DW/G. Kakar
دیکھ بھال
حکام کے مطابق تفتان میں قرنطینہ میں رکھے گئے تمام افراد کو تین وقت کا کھانا اور دیگر سہولیات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ مسافروں کو فراہم کی جانے والی تمام اشیاء پی ڈی ایم اے( صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی) کی جانب سے فراہم کی جارہی ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
پاکستانی ووہان
تفتان کو پاکستان کا ووہان قرار دیا جا رہا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں جن افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے ان میں اکثریت ایسے افراد کی ہے، جو تفتان سے ہوکر مختلف شہروں میں گئے تھے۔ کوئٹہ میں اب تک 10 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق کی گئی ہے۔ بلوچستان کے متعدد قرنطینہ مراکز سے ایسے افراد فرار بھی ہوئے ہیں، جن پر کورونا وائرس سے متاثرہ ہونے کا خدشہ تھا۔
تصویر: DW/G. Kakar
قرنطینہ میں پانچ ہزار افراد
پاک ایران سرحدی شہر تفتان میں اب تک ایران کے مختلف حصوں سے پاکستان آنے والے پانچ ہزار زائرین کو قرنطینہ کیا گیا ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے کے وفاقی ادارے این ڈی ایم اے نے صوبہ بلوچستان کو بارہ سو خیمے، ترپال، کمبل جبکہ وفاقی حکومت نے صرف تین سو ٹیسٹنگ کٹس فراہم کی ہیں۔
تصویر: DW/G. Kakar
تنقید
بلوچستان میں قائم قرنطینہ مراکز پر حکومت سندھ اور وفاقی حکومت نے بھی تحفظات ظاہر کیے ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے نیوز بریفنگ کے دوران موقف اختیار کیا تھا کہ بلوچستان کے قرنطینہ مراکز سے واپس آنے والے افراد میں کورونا وائرس اس لیے پھیلا کیونکہ وہاں رکھے گئے افراد کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ نہیں رکھا گیا تھا۔
تصویر: DW/G. Kakar
ماہرین کی رائے
ماہرین کے بقول بلوچستان میں کورونا وائرس سے نمٹنے کی کوششوں کے دوران ان کی رائے کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ قرنطینہ مراکز میں تعینات ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے نے شکایت کی کہ انہیں پرنسل پروٹیکشن کٹس بھی تاحال فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ اس دوران حکومت بلوچستان نے مرکزی حکومت سے پاک ایران اور پاک افغان سرحد کے غیر قانونی نقل وحمل ختم کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی اضافی نفری تعینات کرنے کی اپیل کی ہے۔
تصویر: DW/G. Kakar
چمن میں بھی قرنطینہ مراکز
پاک افغان سرحد چمن میں بھی افغانستان سے آنے والے افراد کے لیے ایک کھلے میدان میں قرنطینہ مرکز قائم کیا گیا ہے۔ اس سینٹر میں مسافروں کے لیے سینکڑوں خیمے لگائے گئے ہیں۔