ایران میں مظاہرے، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل منقسم
شمشیر حیدر AP, AFP, dpa, Reuters
6 جنوری 2018
امریکا کی درخواست پر ایران میں گزشتہ ہفتے ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں پر گفتگو کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا تھا۔ سلامتی کونسل کے رکن ممالک ہنگامی اجلاس کے دوران منقسم دکھائی دیے۔
اشتہار
گزشتہ شب نیویارک میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بند دروازوں کے پیچھے شروع ہوا۔ امریکا نے ایرانی حکومت کو خبردار کیا کہ دنیا اس پر نظر رکھے ہوئے ہے جب کہ ایران کا کہنا تھا کہ تہران کے پاس حکومت مخالف مظاہروں میں ’بیرونی مداخلت‘ کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ روس نے یہ موقف اختیار کیا کہ ایران کو اس کے معاملات خود نمٹانے دیے جائیں۔ روس، فرانس اور دیگر ارکان کی مخالفت کے باوجود امریکا ایران کے معاملے کو سلامتی کونسل کے دوسرے دور میں لانے میں بھی کامیاب رہا۔
اس اجلاس میں اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی نے کہا کہ ایران میں گزشتہ ہفتے حکومت مخالف اور بعد ازاں حکومت کی حمایت میں ہونے والے مظاہرے اس ملک کو شام کی طرح خانہ جنگی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ ہیلی کا کہنا تھا، ’’آزادی اور انسانی وقار کو امن و استحکام سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ ایرانی حکومت اب نوٹس پر ہے، دنیا اُن پر نظر رکھے ہوئے ہے۔‘‘
ایران میں احتجاجی مظاہروں کی موبائل ویڈیو
01:41
ایرانی سفیر غلام علی خوشرو نے سلامتی کونسل کے ارکان کو بتایا کہ ان کی حکومت کے پاس اس امر کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ حکومت مخالف مظاہرے شروع کرنے کی ہدایات بیرون ملک سے جاری کی گئی تھیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امریکا نے سلامتی کونسل میں اپنی مستقل رکنیت کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔
خوشرو کے مطابق، ’’یہ بدقسمتی ہے کہ کئی رکن ممالک کی مزاحمت کے باوجود امریکی انتظامیہ کے درخواست پر ایک ایسے معاملے پر یہ ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا جو کہ سلامتی کونسل کے متعین حدود سے باہر ہے۔‘‘
روس اور فرانس نے بھی اس ہنگامی اجلاس کے سلامتی کونسل کی حدود سے متجاوز ہونے کے ایرانی موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں اٹھایا جائے گا۔ اقوام متحدہ میں فرانسیسی مندوب فرانسوا دُلات کا کہنا تھا کہ ان کے ملک کو بھی ایران میں ہونے والے ان پرتشدد مظاہروں پر ’تشویش‘ ہے لیکن یہ معاملہ ایسا نہیں ہے جس کے اقوام عالم کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہو۔
روسی مندوب ویسلی نبینزیا کا کہنا تھا کہ ہنگامی اجلاس طلب کر کے امریکا نے سلامتی کونسل کے پلیٹ فارم کا ناجائز استعمال کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’ہمیں بھی ایران میں مظاہروں کے دوران ہلاکتوں پر افسوس ہے لیکن ایران کو اپنے اندرونی معاملات خود نمٹانے دیے جائیں۔‘‘
انیس مئی کو ایران میں صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ صدر حسن روحانی نے چار سال قبل کئی وعدے کیے تھے، جن میں سیاسی قیدیوں کی رہائی، اظہار کی مزید آزادی اور صنفی مساوات نمایاں ہیں۔ روحانی اپنے کون سے وعدے پورے کر سکے؟
تصویر: ISNA
مزید آزادی
اعتدال پسند سمجھے جانے والے حسن روحانی 2013ء میں ایران کے صدر بنے تھے۔ روحانی نوجوانوں اور خاص طور پر خواتین کے لیے ایک امید کی کرن تھے کیونکہ انہوں نے ہمیشہ زیادہ آزادی اور مغرب سے مصالحت کی وکالت کی تھی۔
تصویر: Behrouz Mehri/AFP/Getty Images
محدود اختیارات
سپریم لیڈر خامنہ ای کی جانب سے 64 سالہ روحانی کی صدر کے عہدے پر توثیق کی گئی تھی۔ خامنہ ای کے الفاظ ایران میں ایک قانون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کابینہ کی اہم ترین وزارتیں یعنی دفاع، اطلاعات و نشریات، داخلہ اور خارجہ کے علاوہ ثقافت صرف خامنہ ای کی رضامندی سے ہی کسی کو سونپی جا سکتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Office of the Iranian Supreme Leader
کھنڈر نما ایران
صدر کی ذمہ داری محمود احمدی نژاد سے حسن روحانی کو منتقل ہوئی تھی۔ احمدی نژاد 2005ء سے 2013ء تک ایران کے صدر رہے اور انہوں نے مغربی ممالک کو اشتعال دلانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ احمدی نژاد کی اسرائیل کو دھمکیوں اور جوہری منصوبوں سے دستبرداری سے انکار کی وجہ سے ایران سیاسی اور اقتصادی شعبے میں تنہا ہو گیا تھا۔ حسن روحانی کے بقول،’’ ایک کھنڈر نما ایران میرے حوالے کیا گیا تھا‘‘۔
تصویر: Fars
خاندانی امور کی وزارت ہی نہیں
حسن روحانی نے اپنے حامیوں کو مایوس کرنے میں دیر نہیں لگائی۔کابینہ سازی کے دوران ہی یہ واضح ہو گیا تھا کہ وہ اپنے تمام انتخابی وعدوں کو پورا نہیں کر پائیں گے۔ انہوں نے خواتین کے لیے ایک وزارت کے قیام کا وعدہ اور اعلان کیا تھا۔ تاہم جب اگست 2013ء میں کابینہ کا اعلان کیا گیا تو وہ صرف مردوں پر مشتمل تھی۔
تصویر: ILNA
تنہائی کا خاتمہ
حسن روحانی کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اور ایران کے جوہری توانائی کے محکمے کے سربراہ علی اکبر صالحی دونوں نے اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری امریکا میں مکمل کی۔ جوہری مذاکرات کی کامیابی میں ان دونوں نے مرکزی کردار ادا کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بہتری کی امید
عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے کے بعد ایران کے لیے ایک نئے باب کا آغاز ہوا۔ مغربی ممالک کے سیاستدانوں نے ایران کے ساتھ اقتصادی روابط کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے اس ملک کے دورے شروع کر دیے۔ تاہم روحانی یہاں بھی اپنا ایک اور وعدہ پورا نہیں کر سکے۔ روحانی نے کہا تھا کہ بین الاقوامی پابندیاں ختم ہونے کے بعد اقتصادیات میں بہتری آئے گی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کیے جائیں گے۔
تصویر: MEHR
بے روزگاری کا خاتمہ
ایران میں بے روزگاری پر قابو پانے کے لیے ہر سال تقریباً بارہ لاکھ اسامیاں پیدا کرنی ضروری ہیں۔ تاہم ان میں سے صرف نصف ہی پیدا کی جا رہی ہیں۔ ایران کے کچھ علاقوں میں بے روزگاری کی شرح ستر فیصد تک ہے۔
تصویر: hamseda.ir
مغرب کے ساتھ مصالحت
جوہری معاہدے کے بعد ایران میں سیاحوں کی تعداد بھی بڑھی ہے۔ ایرانی نوجوان بڑے فخر سے غیر ملکی سیاحوں کو کئی ہزار سال پرانی اپنی تہذیب سے آشنا کراتے ہیں۔ انہیں خوشی ہے کہ ان کا رابطہ بیرونی دنیا سے ہوا ہے۔ اس طرح روحانی نے کم از کم اپنا ایک انتخابی وعدہ کچھ حد تک پورا کر دیا ہے۔
تصویر: IRNA
ناپسندیدہ خاتون
خواتین اور خاندانی امور کے شعبے میں حسن روحانی کی نائب شہیندخت مولاوردی نے اندرون و بیرون ملک کئی حلقوں کو مثبت انداز میں متاثر کیا ہے۔ ماہر قانون مولاوردی نے پوپ فرانسس سے فروری 2015ء میں ملاقات کی اور ایرانی سیاست میں خواتین کے زیادہ متحرک ہونے کی وکالت کی۔ اسی وجہ سے شہیندخت مولاوردی کو قدامت پسند حلقوں میں شدید نا پسند کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/Osservatore Romano
ثقافتی شعبے میں اصلاحات
روحانی نے ملک میں ثقافتی اصلاحات لانے کا بھی وعدہ کیا تھا۔ تاہم ان کے صدر بننے کے بعد ثقافتی اور موسیقی کی محفلوں پر حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا۔ قدامت پسند اب بھی کنسرٹ میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں کرتے ہیں۔
تصویر: IRNA
سیاسی قیدیوں کی رہائی
حسن روحانی نے کہا تھا کہ وہ مخالفین کو دبانے کی پالیسی کا خاتمہ کریں گے۔ انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ حزب اختلاف کے رہنما مہدی کروبی، میر حسین موسوی اور ان کی اہلیہ زہرہ راہنورد کی رہائی کے لیے تمام تر کوششیں کریں گے۔ یہ تینوں 2009 ء سے نظر بند ہیں۔
تصویر: hendevaneh.com
شہری حقوق
حسن روحانی نے شہری حقوق کے حوالے سے کچھ قوانین متعارف کرانے کا کہا تھا، جن کا مقصد شہریوں کو آزادی اور شہری حقوق کی ضمانت دینا تھا۔ اس تناظر میں انہوں 2016ء میں ایک دستاویز پیش کی، جسے وزیر انصاف نے مسترد کر دیا۔ وزیر انصاف صادق لاریجانی کو خامنہ ای کے حکم پر براہ راست اس منصب پر فائز کیا گیا تھا۔
تصویر: Isna
آزادی اظہار
حسن روحانی کے دور میں بھی ایران کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں صحافیوں کی ایک بڑی تعداد جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہے۔ 195 ممالک کی اس فہرست میں ایران 169 ویں نمبر پر ہے۔ صحافیوں کو حراست میں لینے کے احکامات وزارت انصاف کی جانب سے دیے جاتے ہیں اور یہ وزارت اور محکمہ قدامت پسندوں کے زیر اثر ہے۔