1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں مظاہرے: ہلاکتیں اور مغربی اقوام کا ردعمل

28 دسمبر 2009

عاشورہٴ محرم کے روز ایران میں عزاداروں کے جلوس کے دوران حکومت مخالف ریلی کے سامنے آنے پر صورت حال پرتشدد مظاہروں میں تبدیل ہو گئی۔ سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں ہونے والی ہلاکتوں پر مغربی اقوام نے مذمت کی ہے۔

تصویر: AP

ایرانی دارالحکومت میں اتوار کے روز ہوئے پرتشدد مظاہروں کے دوران ہونے والی ہلاکتوں پر امریکہ کی جانب سے مذمتی بیان سامنے آیا ہے۔ اِن مظاہروں میں کم از کم پانچ افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ امریکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس میں قائم قومی سلامتی کونسل سے جاری ہونے والے بیان میں حکومتی ایکشن کو عام شہریوں پر غیر منصفانہ جبر کہا ہے۔ اسی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان مائیک ہیمر نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ امید اور تاریخ ایرانی عوام کے ساتھ ہیں جو اپنے آفاقی حقوق کے متلاشی ہیں۔ امریکہ نے مظاہرین کے ساتھ یک جہتی کا بھی اظہار کیا ہے۔

امریکہ کی جانب سے ایران پر دباؤ بڑھایا جارہا ہے کہ وہ ملک میں اپوزیشن کو دبانے کا سلسلہ روک دے۔تصویر: picture-alliance/ dpa / DW-Montage

اسی طرح یورپی ملک اٹلی نے بھی مظاہرین پر حکومتی کریک ڈاؤن کی مذمت کی ہے۔ اطالوی حکومت نے ایران کی اسلامی حکومت کو مظاہرین کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنے پر زور دیا ہے۔ اٹلی کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ انسانی جانوں کی حفاظت بنیادی اقدار میں شامل ہے جس کی پاسداری ہر جگہ ہر حال میں ضروری ہے۔

ایک اور یورپی ملک فرانس نے بھی مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائی کی پرزور مذمت کی ہے۔ فرانس نے سیاسی حل کو وقت کی ضرورت قرار دیا ۔ فرانسیسی وزارت خارجہ کے مطابق حکومتی کارروائی لوگوں کے آزادئ رائے اور جمہوریت کی خواہش کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ فرانسیسی حکومت نے مرحومین کے خاندانوں سے اظہار ہمدردی بھی کیا ہے۔

دُبئی ٹیلی ویژن کے ایک شامی کارکن رضا الباشاہ کے لاپتہ ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ امکانی طور پر وہ حکومتی حراست میں ہو سکتے ہیں۔ تہران کے فارن پریس بیورو نے اِس کی تصدیق کی ہے کہ رضا الباشاہ کا نام ہلاک یا زخمی ہونے والوں میں شامل نہیں ہے۔

اپوزیشن رہنما میر حسین موسوی ایک مظاہرے کے دوران۔ فائل فوتوتصویر: AP

ایرانی دارالحکومت تہران میں عاشورہ کے مذہبی جلوس کے دوران ایران کے اصلاح پسندوں نے سینکڑوں کی تعداد میں دارالحکومت کی گلیوں اور سڑکوں پر جمع ہو کر حکومت کے خلاف احتجاجی ریلی کا اہتمام کردیا۔ اِس پر اُن کی سکیورٹی فورسز سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ جھڑپوں کے دوران سرکاری اہلکاروں کی فائرنگ سے کم از کم پانچ افراد کی ہلاکت کی سرکاری طور پر تصدیق کی گئی ہے جب کہ اصلاح پسندوں کی حامی ویب سائٹس نے ہلاک شدگان کی تعداد آٹھ بتائی ہے۔

ہلاک ہونے والوں میں اصلاح پسند لیڈر میر حسین موسوی کے بھتیجے علی حبیبی موسوی بھی شامل ہیں۔ سرکاری میڈیا کے مطابق حکومت نے مرحوم علی حبیبی کو گمنام قاتلوں کا شکار قرار دینے کے علاوہ اِن مشتبہ ہلاکتوں کی انکوائری کا اعلان بھی کیا ہے۔ ریلی کے دوران مظاہرین کو لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے سیکیورٹی اہلکاروں نے ہوائی فائرنگ بھی کی۔

حکومت مخالف ویب سائٹ جرس کے مطابق رات گئے پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ پولیس نے تین سو سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ مختلف مقامات پر پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔

ایرانی صدر محمود احمدی نژاد۔ فائل فوٹوتصویر: AP

ایرانی حکومت نے عاشورہ کے جلوس کے دوران موسوی کے حمایتیوں کی ریلیوں کو غیر ملکی میڈیا کی ہدایت پر عمل کرنے سے تعبیر کیا ہے۔ ایران کے سب سے اہم مذہبی لیڈر آیت اللہ العظمیٰ خامنائی کے ترجمان مجتبیٰ ظلنور کا کہنا ہے کہ ایرانی عوام اب تک صبر سے سب کچھ برداشت کر رہے ہیں لیکن موجودہ نظام کے اندر بھی صبر کی ایک حد ہے۔ مجتبیٰ ظلنور کا بیان نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی فارس نے جاری کیا ہے۔

رپورٹ : عابد حسین

ادارت : شادی خان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں