ایران کی ایک نامور شطرنج کی کھلاڑی، جسے ہیڈ اسکارف نہ پہننے پر اپنے ملک میں پابندی کا سامنا تھا، اب امریکا کے لیے شطرنج کا کھیل کھیلے گی۔
اشتہار
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق انیس سالہ ڈوسرا ڈیراکھشانی پر ’ایرانی چیس فیڈریشن‘ نے اس لیے پابندی عائد کر دی تھی کیوں کہ اس سال جنوری میں ڈوسرا نے ’جبرالٹر‘ نامی شطرنج کے مقابلے میں اپنا سر نہیں ڈھانپا تھا۔
اس واقعے کے بعد سے یہ نوجوان لڑکی اب امریکا میں رہائش پذیر ہے، جہاں وہ سینٹ لوئس یونیورسٹی کی طالبہ ہے اور اس تعلیمی ادارے کی شطرنج کی ٹیم کا حصہ بھی ہے۔ امریکی چیس فیڈریشن کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی تفصیلات کے مطابق اب ڈوسرا سرکاری طور پر امریکا میں چیس کی کھلاڑی بن گئی ہیں۔
ایرانی لڑکیوں کے تنگ، چُست اور رنگا رنگ ملبوسات
انقلاب ایران کے بعد ایک ضابطہٴ لباس بھی نافذ کر دیا گیا تھا۔ بہت سے لوگ اس کی خلاف ورزی بھی کرتے ہیں۔ اب ایرانی لڑکیوں کے لباس تنگ اور رنگین ہوتے جا رہے ہیں اور وہ حکومتی اداروں کا سامنا کرنے کے لیے بھی تیار نظر آتی ہیں۔
تصویر: IRNA
بال نظر نہ آئیں
ایران میں 1979ء کے بعد سے یہ قانون نافذ ہے کہ خواتین ’مہذب‘ لباس پہنیں گی۔ ضابطہٴ لباس کے مطابق خواتین کے سَر مکمل طور پر ڈھکے ہونے چاہییں، پتلون یا شلوار لمبی ہونی چاہیے اور ممکن ہو تو ملبوسات کے رنگ گہرے اور سیاہ ہونے چاہییں۔
تصویر: Isna
خاموش مزاحمت
گزشتہ سینتیس برسوں سے زائد عرصے سے ایرانی خواتین ضابطہٴ لباس کے خلاف خاموش مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ خواتین اسکارف اور لمبا کوٹ تو پہنتی ہیں لیکن اپنے انداز میں۔ اسکارف کے ساتھ بال بھی نظر آتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
بار بار معائنہ
پولیس کی نظر میں رنگین اور نئے ڈیزائن کے کپڑے ناپسندیدہ ہیں۔ ہر سال موسم گرما میں ایرانی سڑکوں پر ’اخلاقی پولیس‘ کے اہلکاروں کی تعداد بڑھا دی جاتی ہے۔ جو بھی قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے، اسے روک لیا جاتا ہے۔ اس دوران اکثر بحث و مباحثے کا آغاز ہو جاتا ہے کہ آیا واقعی سب کچھ ضابطہٴ لباس کے عین مطابق ہے۔
تصویر: ISNA
سخت نتائج
اگر ’اخلاقی پولیس‘ مطمئن نہیں ہوتی تو جرمانہ کر دیا جاتا ہے اور بعض اوقات گرفتار بھی۔ گرفتار ہونے والی خواتین کو تحریری طور پر لکھ کر دینا ہوتا ہے کہ وہ آئندہ ضابطہٴ لباس کی خلاف ورزی نہیں کریں گی۔
تصویر: FARS
کپڑے رنگین، چُست اور مختصر
متعدد ایرانی لڑکیاں ان حکومتی جرمانوں سے بے خوف نظر آتی ہیں۔ ’اخلاقی پولیس‘ کی مسلسل نگرانی کے باوجود نوجوان لڑکیاں رنگین، چھوٹے اور تنگ لباس پہنے نظر آتی ہیں۔ متعدد ماڈلز سوشل میڈیا میں نئے فیشن کے لباس پیش کرتی ہیں۔
تصویر: Hasan Koleini
دباؤ کے باوجود نئے فیشن
ایرانی ماڈل شبنم مولاوی کی تصویر امریکی فیشن میگزین FSHN کے سرورق پر شائع ہوئی تھی۔ مئی میں اس ماڈل کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس ماڈل پر ’غیراسلامی ثقافت کی تشہیر‘ کا الزام عائد کیا گیا تھا لیکن چند دن بعد ہی اسے ضمانت پر رہائی مل گئی تھی۔
تصویر: fshnmagazine.com
روحانی حکومت اور پردہ
روحانی کی حکومت میں پردے کے معاملے میں نرمی برتے جانے کی توقع کی جا رہی تھی لیکن نئے فیشن کے کپڑوں کی دلدادہ خواتین کے لیے یہ حکومت بھی ’سخت‘ ثابت ہوئی ہے۔ خواتین نئے فیشن کے ملبوسات پر کوئی سمجھوتہ کرتی نظر نہیں آتیں۔
تصویر: Isna
خالی وعدے
صدر حسن روحانی نے 2012ء میں اپنی انتخابی مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد ’سڑکوں پر خواتین کو ہراساں‘ کیے جانے کے عمل کا خاتمہ کر دیں گے۔ لیکن ڈریس کوڈ کی نگرانی کے ذمہ دار 20 اداروں میں سے چند ہی ان کے کنٹرول میں ہیں۔
تصویر: FARS
خفیہ اخلاقی پولیس
اب تہران حکومت نے ’خفیہ اخلاقی پولیس‘ بھی متعارف کروا دی ہے۔ رواں برس اپریل میں تہران پولیس کے سربراہ نے کہا تھا کہ سات ہزار خواتین اور مردوں کو بھرتی کیا گیا ہے، جو ’خفیہ اخلاقی پولیس‘ کا کردار ادا کریں گے۔
تصویر: cdn
انٹرنیٹ پر یکجہتی
جولائی میں سوشل میڈیا پر ایرانی نوجوان مردوں کی طرف سے خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک مہم کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ ضابطہٴ لباس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے نوجوان لڑکوں نے اپنے سروں پر اسکارف لے کر تصاویر پوسٹ کرنا شروع کر دی تھیں۔
تصویر: facebook/my stealthy freedom
10 تصاویر1 | 10
ڈوسرا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ’’میں اب امریکی چیس فیڈریشن کے لیے شطرنج کھیل کر بہت اچھا محسوس کرتی ہوں۔ مجھے یہاں خوش آمدید کیا گیا ہے اور مجھے ان کی حمایت حاصل ہے۔‘‘ گزشتہ ہفتے ایک ریڈیو پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ڈوسرا نے کہا، ’’اب مجھے ایک اچھے استاد کی تلاش ہے اور میں اس کھیل کی ماسٹر بننا چاہتی ہوں۔‘‘ ایرانی چیس فیڈیریشن نے نہ صرف ڈوسرا بلکہ اس کے بھائی پر بھی پابندی عائد کر دی ہے کیوں کہ جبرالٹر مقابلے میں اس نے ایک اسرائیلی لڑکے کے ساتھ چیس کھیلی تھی۔
ڈوسرا کا کہنا ہے کہ وہ پہلے بھی اپنا سر ڈھانپے بغیر چیس کھیل چکی ہيں اور اس پر پابندی دیگر وجوہات کی بنا پر لگائی گئی ہے۔ ڈوسرا پر پابندی کا اعلان تہران میں ’ویمنز ورلڈ چیس ‘ کے مقابلے کے دوران کیا گیا جس میں تینوں ایرانی کھلاڑی ہار گئی تھیں۔ ڈوسرا کا کہنا ہے،’’ تہران کی انتظامیہ کو اس معاملے سے توجہ ہٹانی تھی اور اس مقصد میں وہ کامیاب ہو گئے کیوں کہ ہر کوئی ہمارے بارے میں بات کرنے لگا۔‘‘