1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں پانی کا بحران : بڑی تباہی کا یقینی خدشہ

جاوید اختر (مصنفہ: شبنم فان ہائن)
13 نومبر 2025

ایسے میں جب ایران کو پانی کے بے مثال بحران کا سامنا ہے، سرکاری حکام کی مسلسل نااہلی لاکھوں لوگوں کو ایک ممکنہ بڑی تباہی کی طرف دھکیل رہی ہے۔

حامد پانچویں جماعت کے پرائمری اسکول میں پڑھتا ہے، اور ریت کے طوفان کے باوجود اسے اسکول جانا پڑتا ہے
ایران کے جنوب مشرقی صوبے سیستان و بلوچستان میں واقع ہامون جھیل سمیت کئی جھیلیں مکمل طور پر خشک ہو چکی ہیںتصویر: Sadegh Souri/Middle East/picture alliance

ایران کے آدھے حصے میں گرمیوں کے اختتام کے بعد سے اب تک بارش کا ایک قطرہ بھی نہیں گرا، جب کہ خود گرمیوں کے موسم میں شدید درجہ حرارت نے پانی کی فراہمی کے مسائل کو مزید بڑھا دیا تھا۔

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق، جو ہر سال 23 ستمبر سے بارش کی پیمائش شروع کرتے ہیں، ملک کے 31 صوبوں میں سے 15 میں اب تک بارش کا کوئی اندراج نہیں ہوا۔

یہ صورت حال اب ایک بے مثال بحران کی شکل اختیار کر چکی ہے، جس نے حکام کو پانی کی راشن بندی پر مجبور کر دیا ہے۔ توانائی کے وزیر عباس علی آباد کے مطابق، دارالحکومت تہران نے پانی کے ضیاع سے بچنے کے لیے فراہمی پر باری باری پابندیاں عائد کی ہیں۔

رہائشیوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے کنٹینرز اور پمپ استعمال کریں تاکہ فراہمی کے مسائل سے نمٹا جا سکے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں کے لیے یہ صورتحال جانی پہچانی ہے۔ تہران کی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے، شہر میں تقریباً ایک کروڑ اور میٹروپولیٹن علاقے میں قریب 1.8 کروڑ لوگ رہتے ہیں، لیکن اس کا آبی ڈھانچہ پرانا اور خستہ حال ہے، اور کافی مقدار میں پانی راستے میں ضائع ہو جاتا ہے۔

شہر کے مرکزی علاقوں میں رہنے والے لوگ کئی ماہ سے بغیر اطلاع کے پانی کی بندش کا سامنا کر رہے ہیں، اور حکام کا کہنا ہے کہ ایسا مرمت کے باعث ہے۔

تہران کے مغربی حصے کی ایک ریٹائرڈ خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارا پانی ابھی تک بند نہیں ہوا، لیکن ہم کچھ عرصے سے اپنے فلیٹ میں پانی کے پمپ استعمال کر رہے ہیں کیونکہ پریشر بہت کم ہے۔‘‘

ایرانی حکام نے متاثرہ علاقوں میں پانی کی فراہمی بڑھانے کے لیے ٹرکوں کا استعمال کیا ہےتصویر: Irna

ایران میں زراعت پانی کو نگل رہی ہے

ایران کو مسلسل چھ سال سے پانی کے بحران کا سامنا ہے، اور تہران کے آبی ذخائر کئی دہائیوں کی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ تہران کے رہائشیوں نے گزشتہ سات ماہ میں اپنے پانی کے استعمال میں 12 فیصد کمی کی ہے، لیکن یہ کمی اب بھی مقررہ ہدف تک نہیں پہنچی۔

حکام کے مطابق،''آب وہوا کی موجودہ صورتحال اور مسلسل خشک سالی کے پیشِ نظر، پانی کی فراہمی کو موسمِ سرما تک برقرار رکھنے کے لیے یہ کمی تقریباً 20 فیصد تک پہنچنی ضروری ہے۔‘‘

ماحولیاتی محقق اعظم بہرامی نے کہا،''لوگوں کے پانی کے کم استعمال سے اس بحران پر قابو پانے کی کوشش کافی نہیں ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا،''اگر پانی کے استعمال کے تناسب پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ زراعت کا شعبہ تقریباً 80 سے 90 فیصد پانی استعمال کرتا ہے، جو سب سے بڑا حصہ ہے۔ جب تک کچھ شعبوں کو ترجیحی حیثیت حاصل رہے گی، پانی بچانے کے اقدامات زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوں گے۔‘‘

امیر کبیر ڈیم، جو تہران کو پانی فراہم کرنے والے پانچ بڑے ذخائر میں سے ایک ہے، اس موسمِ گرما میں اپنی تاریخی کم ترین سطح تک گر گیاتصویر: Fatemeh Bahrami/Anadolu/picture alliance

ہر سال اربوں ٹن پانی ضائع

ایران ہمیشہ سے ایک نسبتاً خشک ملک رہا ہے۔ تاہم اب اس کے آبی ذخائر عشروں سے جاری حد سے زیادہ استعمال، غیر مؤثر آبپاشی اور ناقص انفراسٹرکچر کے باعث شدید حد تک کم ہو چکے ہیں۔

جرمنی کی اسٹٹگارٹ یونیورسٹی کے محقق محمد جواد طوریان کے مطابق، 2002 سے ایران ہر سال تقریباً 16 مکعب کلومیٹر پانی کھو رہا ہے۔ ایک مکعب کلومیٹر تقریباً ایک ارب ٹن پانی کے برابر ہوتا ہے۔

طوریان کے مطابق، "اس کا مطلب ہے کہ ایران ہر تین سال میں تقریباً ایک 'کونستانس جھیل' جتنی مقدار میں پانی کھو دیتا ہے۔" انہوں نے ایران کے پانی کے بحران پر ایک تحقیق میں شراکت کی تھی جو معروف جریدے نیچر میں 2022 میں شائع ہوئی۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ایک سوال کے جواب میں کہا، ''مجموعی طور پر پچھلے 23 سالوں میں تقریباً 370 مکعب کلومیٹر پانی غائب ہو چکا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مسئلہ انتہائی سنگین ہے۔‘‘

صدر مسعود پزشکیان نے اشارہ دیا کہ پانی کے بحران کی وجہ سے تہران کو خالی کرانا پڑ سکتا ہےتصویر: AFP

پزشکیان نے تہران کو خالی کرانے کا عندیہ دیا

ماحولیاتی ماہرین طویل عرصے سے ایرانی حکام کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ملک اب آبادی میں اضافے یا خوراک کی مکمل خود کفالت برداشت نہیں کر سکتا۔ لیکن حکام نے ان ماہرین کو فیصلہ سازی کے عمل سے منظم انداز میں خارج کر کے ان کی جگہ ایسے افراد کو مقرر کیا جو نظریاتی طور پر زیادہ موافق تھے۔

پانی کے بحران کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہ آنے کے باعث، اب یہ بحث عوام تک پہنچتی دکھائی دے رہی ہے۔ اصلاح پسند اخبار اعتماد نے اس صورتحال کا ذمہ دار "اہم اداروں میں نااہل منتظمین" کو ٹھہرایا، جب کہ روزنامہ شرق نے کہا کہ ماحولیاتی تحفظ کو''سیاست کی نذر کر دیا گیا ہے۔‘‘

بہت سے لوگ صدر مسعود پزشکیان پر بھی تنقید کر رہے ہیں، جنہوں نے اشارہ دیا کہ پانی کے بحران کی وجہ سے تہران کو خالی کرانا پڑ سکتا ہے۔ ایرانی حکام نے ابھی تک وضاحت نہیں کی کہ اس شہر کے لاکھوں رہائشی کہاں جائیں گے اور انہیں کس طرح منتقل کیا جائے گا۔

تہران کے آبی ذخائر کئی دہائیوں کی کم ترین سطح پر پہنچ چکے ہیںتصویر: Omar Karim/Middle East Images/picture alliance

ایران پانی کے بحران کو کیسے حل کر سکتا ہے؟

اب تک حکام نے پانی کی پابندیوں اور بارش کے انتظار کے علاوہ اس بحران پر قابو پانے کے لیے کوئی واضح منصوبہ پیش نہیں کیا ہے۔

محقق محمد جواد طوریان نے کہا،''اس وقت کچھ ایسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں جو فوری راحت فراہم کر سکتے ہیں۔ مثلاً تہران جیسے شہروں میں پینے کے پانی کو ترجیح دینا اور کم از کم استعمال کو وقتی طور پر محدود کرنا قلیل مدتی طور پر مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔ تاہم اصل اہمیت ایسے ٹھوس اقدامات کی ہے جو پانی کے بحران کا دیرپا حل فراہم کر سکیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ سیٹلائٹ تصاویر کے استعمال سے پورے ملک میں پانی کے نقصان کا ایک واضح اور خودمختار جائزہ تیار کیا جا سکتا ہے اور پانی کے بجٹ کو حقیقت پسندانہ انداز میں ناپا جا سکتا ہے۔ ایک اور اہم قدم ایران کے زرعی نظام کی تبدیلی ہے، جس کے تحت فصلوں کو مقامی موسمی حالات کے مطابق ڈھالا جائے، اور آبپاشی کے نظام کو زیادہ مؤثر بنایا جائے۔

طوریان نے کہا،''یہ تمام اقدامات بیان کرنا آسان ہے مگر عمل میں لانا مشکل۔ ان کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات، تکنیکی صلاحیت، قابلِ اعتماد معلوماتی ڈھانچے اور سیاسی عزم کی ضرورت ہے، اور اکثر اوقات یہ عوامل خود تکنیکی حل سے کہیں زیادہ مشکل ثابت ہوتے ہیں۔‘‘

ادارت: صلاح الدین زین

یہ مضمون جرمن زبان سے ترجمہ کیا گیا ہے۔

جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں