1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں پھانسیوں کے خلاف قیدیوں کا احتجاج اور بھوک ہڑتال

مقبول ملک ، ڈی پی اے کے ساتھ۔ ادارت | عاطف بلوچ
15 اکتوبر 2025

ایران میں سزائے موت پر عمل درآمد کے بڑھتے واقعات کے خلاف ملک کی سب سے بڑی جیلوں میں سے ایک میں قیدی گزشتہ دو روز سے احتجاجاﹰ دھرنا دیے ہوئے اور بھوک ہڑتال پر ہیں۔ دریں اثنا ایران میں مزید تین مجرموں کو پھانسی دے دی گئی۔

ایران کا قومی پرچم اور پھانسی کا پھندا، ایک علامتی تصویر
اطالوی دارالحکومت روم میں ایرانی سفارت خانے کے باہر ایرانی شہریوں کے سزائے موت کے خلاف احتجاج کے موقع پر لی گئی ایک تصویرتصویر: Mauro Scrobogna/LaPresse via ZUMA Press/picture alliance

فرانسیسی دارالحکومت پیرس سے موصولہ رپور‌ٹوں کے مطابق ایران میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم مختلف تنظیموں نے بدھ 15 اکتوبر کے روز بتایا کہ ایران میں مختلف طرح کے جرائم کے مرتکب افراد کو دی جانے والی موت کی سزاؤں کے واقعات میں حالیہ کئی مہینوں سے جو مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اس کے خلاف بیرون ملک اور اندرون ملک سے اٹھنے والی تنقیدی آوازیں اب بلند ہوتی جا رہی ہیں۔

ایرانی شہر کرج کی قزلحصار جیل

اس رجحان کے خلاف اب ملک کی سب سے بڑی جیلوں میں سے ایک میں قیدیوں نے بھی احتجاج کرنا شروع کر دیا ہے۔ تہران سے کچھ دور کرج نامی شہر کی قزلحصار جیل میں، جس میں قیدیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو رکھا گیا ہے، بہت سے قیدی پیر 13 اکتوبر سے نہ صرف احتجاجی دھرنا دیے ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے بھوک ہڑتال بھی شروع کر رکھی ہے۔

ایران میں سزائے موت کے خلاف کینیڈا میں احتجاج کرتی ایرانی نژاد خواتینتصویر: Artur Widak/NurPhoto/picture alliance

ایران میں مجرموں کو سزائے موت دینے کے لیے عام طور پر انہیں پھانسی دے دی جاتی ہے۔ ملک میں پھانسیوں کی اس مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد کے خلاف قزلحصار جیل میں قیدیوں کے اس دوہرے احتجاج کی تصدیق ناروے میں قائم 'ایران ہیومن رائٹس‘ (IHR) اور امریکہ میں قائم ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹس نیوز ایجنسی (HRANA) نے بھی کر دی ہے۔

ایران میں سزائے موت کی منتظر شریفہ محمدی کا کیس؟

ان دونوں تنظیموں نے اپنے دو مختلف بیانات میں کہا کہ قزلحصار جیل میں قیدیوں کی ایک بڑی تعداد پیر 13 اکتوبر سے بھوک ہڑتال پر ہے اور وہ اس جیل کے مختلف کوریڈورز میں اپنے اپنے سیلز کے باہر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔

احتجاج کی ویڈیو

ایران میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم ان دونوں تنظیموں میں سے ایک نے ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے۔ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح قیدی اس جیل میں اپنے سیلز کے باہر بیٹھے ہیں اور نعرے لگا رہے ہیں، جن میں ''سزائے موت نامنظور‘ جیسے نعرے بھی شامل ہیں۔

ایران میں سزائے موت دیے جانے کے خلاف امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں احتجاج کرتی ایک خاتون، جس کی آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھی ہوئی ہےتصویر: Ali Khaligh/Middle East Images/IMAGO

شمالی یورپی ملک ناروے میں قائم تنظیم ایران ہیومن رائٹس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اسے ملنے والی یہ ویڈیو قزلحصار جیل کے اندر قیدیوں کے احتجاج کے دوران بنائی گئی اور اسے اپنے کارکنوں کے ذریعے موصول ہوئی۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق یہ واضح نہیں کہ آج بدھ کے روز کرج کی جیل میں قیدیوں کے احتجاج کی صورت حال کیا ہے۔

عالمی سطح پر سزائے موت پر عمل درآمد میں غیر معمولی اضافہ

'ایران میں مزاحمت کی قومی کونسل‘ یا این سی آر آئی، جو کہ ممنوع قرار دیے گئے مجاہدین خلق (ایم ای کے) نامی گروپ کا سیاسی بازو ہے، کے مطابق کرج کی قزلحصار جیل میں اس احتجاج میں شریک قیدیوں کی تعداد 1500 ہے۔ اس تعداد کی تاہم غیر جانبدارانہ طور پر تصدیق ممکن نہیں۔

اسپین کے شہر بارسلونا میں ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران ایران میں سزائے موت دیے جانےکے خلاف احتجاج کرتی ایک خاتونتصویر: Paco Freire/ZUMA Wire/IMAGO

تین اور مجرموں کو دی جانے والی سزائے موت

ایرانی عدلیہ کی ویب سائٹ 'میزان‘ کے مطابق آج بدھ کے روز تین مزید مجرموں کو سنائی گئی سزائے موت پر عمل درآمد کر دیا گیا۔ یہ مجرم تہران اور اس کے مضافات میں ڈکیتیوں جیسے متعدد مسلح جرائم کے مرتکب ہوئے تھے۔

ایران میں گزشتہ برس 975 افراد کو سزائے موت دی گئی

'میزان‘ کے مطابق ان تینوں مجرموں کو پھانسی دی گئی اور ان کی سزاؤں پر عمل درآمد اس وقت کیا گیا، جب ایک ذیلی عدالت کی طرف سے ان کو سنائی گئی موت کی سزاؤں کی ایرانی سپریم کورٹ نے بھی توثیق کر دی تھی۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایران میں رواں برس 1000 سے زائد مجرموں کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے۔ ابھی سال 2025ء پورا نہیں ہوا، اور پھانسیوں  کی یہ تعداد پہلے ہی گزشتہ 15 برسوں کی سب سے بڑی سالانہ تعداد بن چکی ہے۔

مقبول ملک ڈی ڈبلیو اردو کے سینیئر ایڈیٹر ہیں اور تین عشروں سے ڈوئچے ویلے سے وابستہ ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں