1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں چھ صدارتی انتخابی امیدواروں کے ناموں کی منظوری

9 جون 2024

گارڈین کونسل یا شوریٰ نگہبان نے ایک بار پھر سابق صدر محمود احمدی نژاد کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے۔ ایرانی پارلیمان کے سپیکر باقر قالیباف کو صدارتی انتخاب کے لیے سب سے مضبوط امیدوار سمجھا جا رہا ہے۔

آئندہ انتخابات کے لیے امیدواروں کے ناموں کی منظوری سپریم لیڈر علی خامنہ ای کی زیر نگرانی  شوریٰ نگہبان نے دی
آئندہ انتخابات کے لیے امیدواروں کے ناموں کی منظوری سپریم لیڈر علی خامنہ ای کی زیر نگرانی شوریٰ نگہبان نے دیتصویر: Morteza Nikoubazl/NurPhoto/picture alliance/dpa

ایرن میں اسی ماہ منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے چھ امیدواروں کے ناموں کی منظوری دے گی گئی ہے۔ یہ منظوری ملک کی انتہائی بااختیار سمجھی جانے والی گارڈین کونسل نے آج اتوار کے روز دی۔ جن امیدواروں کے ناموں کی منظوری دی گئی ہے، ان میں ایرانی پارلیمان کے سخت گیر اسپیکر بھی شامل ہیں۔

تاہم شوریٰ نگہبان نے سابق صدر محمود احمدی نژاد کے کاغذات نامزدگی ایک بار پھر مسترد کر دیے۔ سخت گیر خیالات رکھنے والے احمدی نژاد دو مرتبہ ایران کے صدر رہ چکے ہیں۔ تاہم گزشتہ صدراتی الیکشن کے لیے بھی ان کے کاغذات نامزدگی کی منظوری نہیں دی گئی تھی۔

سخت گیر خیالات رکھنے والے احمدی نژاد دو مرتبہ ایران کے صدر رہ چکے ہیںتصویر: Rouzbeh Fouladi/ZUMA/IMAGO

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی گزشتہ ماہ سات دیگر افراد کے ہمراہ ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں ہلاکت کے بعد ملک میں نئے صدارتی انتخابات اٹھائیس جون کو کرانے کا اعلان کیا گیا تھا۔

انتہائی طاقتور شوریٰ نگہبان نے ملک کی حکمرانی میں بنیادی تبدیلی کا مطالبہ کرنے والے کسی بھی شخص یا کسی خاتون کو انتخاب لڑنے کا موقع نہ دینے کی روایت اس مرتبہ بھی برقرار رکھی۔ اس مرتبہ ملکی صدارتی انتخابی مہم میں ممکنہ طور پر ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے پر امیدواروں کے مابین براہ راست ٹیلی وژن مباحثے شامل ہوں گے۔

جن امیدواروں کے ناموں کی منظوری دی گئی ہے، ان میں سب سے نمایاں ایرانی پارلیمان کے موجودہ اسپیکر باسٹھ سالہ محمد باقر قالیباف ہیں، جو تہران کے سابق میئر ہیں اور ان کے ملک کے طاقتور ترین نیم فوجی دستوں پاسداران انقلاب سے قریبی تعلقات ہیں۔ تاہم بہت سے لوگوں کو یاد ہے کہ پاسداران انقلاب کے ایک جنرل کے طور پر قالیباف 1999 میں ایرانی یونیورسٹی طلبا کے خلاف ایک پرتشدد کریک ڈاؤن کا حصہ تھے۔

 انہوں نے مبینہ طور پر 2003ء میں ملک کے پولیس سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیتے ہوئے طلبا کے خلاف براہ راست گولیاں چلانے کا حکم دیا تھا۔ قالیباف نے 2005 اور 2013  کے صدارتی انتخابات میں بھی حصہ لیا تھا لیکن ناکام رہے تھے۔

ایرانی پارلیمان کے موجودہ اسپیکر باسٹھ سالہ محمد باقر قالیباف تصویر: Iranian Supreme Leader's Office/dpa/picture-alliance

وہ 2017ء  میں ابراہیم رئیسی کی حمایت کرتے ہوئے اپنی انتخابی امیدواری سے دستبردار ہو گئے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ تب رئیسی صدارتی امیدوار بنے تھے مگر وہ یہ الیکشن ہار گئے تھے۔ ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای نے گزشتہ ہفتے ایک تقریر میں آئندہ کے کامیاب صدارتی امیدوار کے لیے ان خصوصیات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا، جن کو قالیباف کے حامیوں نے ممکنہ طور پر اسپیکر کے لیے سپریم لیڈر کی حمایت کا عندیہ قرار دیا تھا۔

اس کے باوجود کریک ڈاؤن میں قالیباف کے کردار کو ایران میں برسوں سے جاری بدامنی کی وجہ سے مختلف انداز میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بد امنی کے ان واقعات میں 2022 میں مہسا امینی کی موت کے بعد بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہرے بھی شامل ہیں۔ امینی کو ملکی اخلاقی پولیس نے مبینہ طور پر نامناسب طریقے سے حجاب پہننے کے الزام میں گرفتار کیا تھا تاہم بعد میں دوران حراست ان کی موت ہو گئی تھی۔

نئے ایرانی صدر کے لیے ملک کی بیمار معیشت بھی عملاﹰ بہتری لانا بھی ایک بڑا چیلنج ہو گا۔

ش ر⁄ م م (اے پی)

رئیسی کی موت سے مشرق وسطیٰ میں ایران کا اثر و رسوخ متاثر نہیں ہو گا

02:47

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں