ایران میں کرد اکثریتی علاقوں میں حکومت مخالف مظاہرے شدید
11 اکتوبر 2022
ایرانی خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد حکومت مخالف مظاہروں میں شدت آتی جا رہی ہے جبکہ دوسری طرف ایران پر بین الاقوامی دباؤ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ ملک گیر مظاہرے ایران کے لیے ایک نیا چیلنج بن چکے ہیں۔
اشتہار
ایرانی حکام نے ملک کے مغرب میں واقع کرد اکثریتی علاقوں میں اپنے کریک ڈاؤن میں شدت پیدا کر دی ہے۔ وائرل ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایرانی سکیورٹی فورسز نے سنندج نامی علاقے میں مظاہرین کو منشتر کرنے کی خاطر فائرنگ بھی کی۔
مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کے زیر حراست ہلاک کے بعد ایران بھر میں گزشتہ ایک ماہ سے پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ایرانی قیادت ان مظاہروں کو ختم کرانے کی کوشش میں ہے تاہم سڑکوں پر نکلنے والے افراد کی تعداد روزبروز بڑھتی جا رہی ہے۔
ایرانی حکومت کے مطابق امینی کے ساتھ دوران حراست کوئی جسمانی بدسلوکی نہیں کی گئی لیکن ان کے خاندان کا کہنا ہے کہ امینی کے جسم پر زخموں کے نشانات موجود تھے۔
امینی کی موت کے بعد منظر عام پر آنے والی ویڈیوز میں سیکورٹی فورسز کو خواتین مظاہرین کو مارتے اور دھکے مارتے دیکھا جا سکتا ہے۔
یہ خواتین کی آزادی و خودمختاری کا معاملہ ہے
01:05
یاد رہے کہ امینی کے موت کے خلاف ہونے والے ملک گیر مظاہروں میں ایرانی خواتین کو اپنے ہیڈ اسکارف اتار کر پھاڑتے ، جلاتے اور سر عام اپنے بال کاٹتے دیکھا جا سکتا ہے۔ایسی متعدد ویڈیوز سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی پوسٹ کی جا چکی ہیں۔
حکام کی جانب سے انٹرنیٹ بندش کے باوجود ایرانی دارالحکومت تہران اور دیگر شہروں سے یہ ویڈیوز سامنے آئی ہیں۔
گزشتہ ایک ماہ سے جاری حکومت مخالف ان مظاہروں میں عوامی سطح پر شدت دیکھنے میں آرہی ہے۔ ایران میں یونیورسٹی اور ہائی اسکول کے طلباء ان مظاہروں میں شرکت کر رہے ہیں۔
ایران میں جاری یہ مظاہرے 2009 کی احتجاجی گرین موومنٹ کے بعد ملک کی مذہبی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہو رہے ہیں۔
ان مظاہروں کے خلاف بالخصوص ایرانی کرد علاقوں میں کریک ڈاؤن سخت ترین ہو گیا ہے۔
ہینگاؤ آرگنائزیشن فار ہیومن رائٹس نامی کرد گروپ کی جانب سے ایک آن لائن پوسٹ کی گئی ویڈیو میں تہران سے تقریباً 400 کلومیٹر مغرب میں واقع سنندج، جو کہ ایک کرد اکثریتی علاقہ ہے، کا ایک منظر دیکھا جا سکتا ہے جس میں ایرانی فورسز کی جانب سے گولیاں چلائی جا رہی اور پولیس ان مظاہرین کے خلاف شاٹ گنز کا استعمال کر تے ہوئے ان کے گھروں کو بھی نشانہ بنا رہی ہے۔
ایران کی اخلاقی امور کی پولیس کی حراست میں 22 سالہ مھسا امینی کی ہلاکت کے بعد تہران حکومت مظاہرین کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ اختتام ہفتہ پر دنیا بھر میں ہزارہا افراد نے ایک بار پھر مظاہرے کیے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
پیرس
دنیا بھر میں بہت سے لوگ ایرانی مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس کے وسط میں اتوار کے روز مظاہرین نے ’پلاس دے لا رےپُبلیک‘ سے ’پلاس دے لا ناسیون‘ تک مارچ کیا اور ’اسلامی جمہوریہ مردہ باد‘ اور ’آمر کی موت‘ کے نعرے لگائے۔
تصویر: Stefano Rellandini/AFP/Getty Images
استنبول، دیار باقر اور ازمیر
ترکی کے شہر استنبول میں منعقدہ مظاہروں میں متعدد ایرانی خواتین بھی شامل تھیں۔ سینکڑوں مظاہرین نے ایرانی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ وہ ’خواتین، زندگی، آزادی‘ جیسے نعرے لگا رہی تھیں۔ ترکی کے کُرد اکثریتی آبادی والے صوبے دیار باقر میں خاص طور پر خواتین نے ایرانی مظاہرین سے یکجہتی کا اظہار کیا۔ مھسا امینی بھی کُرد نسل کی ایرانی شہری تھیں۔ اس کے علاوہ ترکی کے شہر ازمیر میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: Emrah Gurel/AP/picture alliance
برلن
جرمن دارالحکومت برلن میں تقریباﹰ پانچ ہزار افراد نے ایرانی حکومت کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نے خواتین پر تشدد کے خلاف بین الاقوامی یکجہتی اور خواتین کے قتل کے واقعات کے خاتمے کا مطالبہ بھی کیا۔ جرمنی میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے ایرانی باشندوں کے ایک ترجمان نے خونریزی بند کیے جانے اور ایران میں جمہوری اصلاحات کے نفاذ کا مطالبہ کیا۔
تصویر: Annette Riedl/dpa/picture alliance
بیروت
مشرق وسطیٰ میں بھی بہت سے شہری ایران میں احتجاجی تحریک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔ لبنانی دارالحکومت بیروت میں مظاہرین قومی عجائب گھر کے باہر جمع ہوئے اور خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
تصویر: MOHAMED AZAKIR/REUTERS
لاس اینجلس
امریکہ میں بھی بہت سے مظاہرین ایران میں خواتین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے جمع ہوئے، جیسا کہ اس تصویر میں ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس کے سٹی ہال کے باہر۔ اس موقع پر موسیقاروں کے ایک گروپ نے روایتی ایرانی فریم ڈرم بجائے۔ اس کے علاوہ لندن، ٹوکیو اور میڈرڈ میں بھی مظاہرے کیے گئے۔
تصویر: BING GUAN/REUTERS
شریف یونیورسٹی، تہران
مظاہروں کے آغاز سے ہی ایرانی یونیورسٹیوں کے طلبا بھی اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت اور اس کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں۔ تہران میں سکیورٹی فورسز نے شریف یونیورسٹی میں احتجاج کرنے والے طلبا اور پروفیسروں کے خلاف کارروائی کی۔ ایرانی شہر اصفہان میں اتوار کے روز ہونے والے تشدد کی ویڈیوز اور تصاویر بھی بڑے پیمانے پر سوشل میڈیا پر شیئر کی گئیں۔
تصویر: UGC/AFP
6 تصاویر1 | 6
بائیس سالہ ایرانی خاتون مہسا امینی کا تعلق ایران کی کرد برادری سے ہی تھا جن کی موت نے ملک میں بالخصوص کرد لوگوں میں زیادہ اشتعال پیدا کیا ہے۔ امینی کی موت کے بعد ایران میں مظاہروں کا آغاز بھی اسی کرد علاقے سے ہوا تھا جو اب ملک بھر میں پھیل چکے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایرانی سیکورٹی فورسز پر آتشیں ہتھیاروں کے استعمال اور لوگوں کے گھروں پر اندھا دھند آنسو گیس فائر کرنے پر تنقید کی ہے۔
انسانی حقوق کے علمبردار اس ادارے نے دنیا پر زور دیا کہ وہ مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کو ختم کرنے کے لیے ایران پر دباؤ ڈالے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ایران اپنے جرائم پر پردہ پوشی کرنے کے لیے ملک میں انٹرنیٹ کی بندش کر رہا ہے۔
ایران حکومت کی جانب سے تاہم سنندج میں نئے سرے سے کریک ڈاؤن کے حوالے سے فوری طور پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ ایران کی وزارت خارجہ نے کریک ڈاؤن کی وجہ سے ملک کی اخلاقی پولیس کے ارکان اور سیکورٹی اہلکاروں پر پابندی عائد کرنے پر برطانوی سفیر کو بھی طلب کر لیا ہے۔
ایرانی حکومت کی جانب سے یوکرائنی ہوائی جہاز کو غلطی سے مار گرانے کو تسلیم کرنے پر عوام نے اپنی حکومت کے خلاف مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے دارالحکومت ایران سمیت کئی دوسرے شہروں میں کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/NurPhoto/M. Nikoubaz
تہران میں مظاہرے
ایرانی دارالحکومت تہران میں سینکڑوں افراد حکومت مخالف مظاہروں میں شریک رہے۔ یہ مظاہرین ایرانی حکومت کے خلاف زور دار نعرے بازی کرتے رہے۔ ان مظاہرین کو بعد میں ایرانی پولیس نے منتشر کر دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
امیر کبیر یونیورسٹی
تہران کی دانش گاہ صنعتی امیر کبیر (Amirkabir University of Technology) ماضی میں تہران پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کہلاتی تھی۔ گیارہ جنوری سن 2020 کو ہونے والے حکومت مخالف مظاہرے اس یونیورسٹی کے مرکزی گیٹ کے سامنے کیے گئے۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/R. Fouladi
ایرانی مظاہرین کا بڑا مطالبہ
یونیورسٹی طلبہ کا سب سے اہم مطالبہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی دستبرداری کا تھا۔ ان مظاہرین نے مقتول جنرل قاسم سلیمانی کی تصاویر کو پھاڑا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ مظاہرے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر بھی جاری کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
مظاہروں کا نیا سلسلہ
گیارہ جنوری کو مظاہرے تہران کے علاوہ شیراز، اصفہان، حمدان اور ارومیہ میں بھی ہوئے۔ امکان کم ہے کہ ان مظاہروں میں تسلسل رہے کیونکہ پندرہ نومبر سن 2019 کے مظاہروں کو ایرانی حکومت نے شدید انداز میں کچل دیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
برطانوی سفیر کی تہران میں گرفتاری و رہائی
ایرانی نیوز ایجنسی مہر کے مطابق سفیر کی گرفتاری مظاہروں میں مبینہ شرکت کا نتیجہ تھی۔ ایرانی دارالحکومت تہران میں متعین برطانوی سفیر راب میک ایئر نے کہا ہے کہ وہ یونیورسٹی کے مظاہرے میں قطعاً شریک نہیں تھے۔ سفیر کے مطابق وہ یونیورسٹی کے باہر یوکرائنی مسافروں کے لیے ہونے والے دعائیہ تقریب میں شرکت کے لیے گئے تھے۔
تصویر: gov.uk
یوکرائنی طیارے کے مسافروں کی یاد
جس مسافر طیارے کو غلطی سے مار گرایا گیا تھا، اُس میں امیر کبیر یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ بھی سوار تھے۔ یونیورسٹی کے طلبہ نے اپنے مظاہرے کے دوران اُن کی ناگہانی موت پر دکھ کا اظہار بھی کیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
سابق طلبہ کی یاد میں شمعیں جلائی گئیں
تہران کی امیرکبیر یونیورسٹی کے طلبہ نے یوکرائنی ہوائی جہاز میں مرنے والے سابقہ طلبہ اور دیگر ہلاک ہونے والے ایرانی مسافروں کی یاد میں یونیورسٹی کے اندر شمعیں جلائیں۔ یوکرائنی مسافر بردار طیارے پر نوے سے زائد ایرانی مسافر سوار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/E. Noroozi
مہدی کروبی کا مطالبہ
ایران کے اہم اپوزیشن رہنما مہدی کروبی نے بھی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خامنہ ای یوکرائنی کمرشل ہوائی جہاز کی تباہی کے معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ کروبی ایران میں اصلاحات پسند گرین موومنٹ کے رہنما ہیں۔
تصویر: SahamNews
ڈونلڈ ٹرمپ اور ایرانی مظاہرین
ڈونلڈ ٹرمپ نے تہران حکومت خبردار کیا ہے کہ وہ ان مظاہرین پر ظلم و جبر کرنے سے گریز کرے۔ ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹ میں کہا کہ وہ بہادر ایرانی مظاہرین کے ساتھ ہیں جو کئی برسوں سے مصائب اور تکالیف برداشت کر رہے ہیں۔ ٹرمپ کے مطابق ایرانی حکومت پرامن مظاہرین کا قتل عام کر سکتی ہے مگر وہ یاد رکھے کہ دنیا کی اس پر نظر ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Martin
پندرہ نومبر سن 2019 کے مظاہرے
گزشتہ برس نومبر میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے بعد کئی بڑے ایرانی شہروں میں ہونے والے مظاہروں کو سخت حکومتی کریک ڈاؤن کا سامنا رہا تھا۔ یہ ایران میں چالیس سالہ اسلامی انقلاب کی تاریخ کے سب سے شدید مظاہرے تھے۔ بعض ذرائع اُن مظاہروں میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پندرہ سو کے لگ بھگ بیان کرتے ہیں۔ تصویر میں استعمال کیے جانے والے کارتوس دکھائے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/abaca/SalamPix
10 تصاویر1 | 10
سلیوان نے اپنے ایک ٹوئٹ میں لکھا، ’’یہ مظاہرین ایرانی شہری ہیں جن کی قیادت خواتین کر رہی ہیں۔ یہ عزت اور بنیادی حقوق کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ہم ان مظاہرین کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہم ان لوگوں کو ذمہ دار ٹھہرائیں گے جو تشدد کا استعمال کرتے ہوئے ان کی آواز کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘