وسطی ایران میں ایک بس پلٹ جانے کے سبب تقریباﹰ تیس پاکستانی زائرین کی ہلاکت اور بیس کے قریب زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ ایران کی خبر رساں ایجنسیوں کے مطابق یہ حادثہ منگل کی رات کو وسطی ایران کے صوبے یزد میں پیش آیا۔
حادثے کے وقت بس میں 50 سے زیادہ افراد سوار تھے، جو سب پاکستانی زائرین تھے اور اربعین کے مذہبی جلوس میں شرکت کے لیے عراق جا رہے تھےتصویر: Mohammed Sawaf/AFP/Getty Images
اشتہار
خبر رساں ادارے ایسو سی ایٹیڈ پریس نے ایک ایرانی اہلکار کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ بدھ کے روز اس نے اسے بتایا کہ پاکستان سے عراق جانے والی شیعہ زائرین کی بس وسطی ایران میں گر کر تباہ ہو گئی، جس میں کم از کم 28 افراد ہلاک ہو گئے۔
پاکستان کے معروف میڈيا ادارے ڈان نے ریڈیو پاکستان کے حوالے سے اس حادثے میں ہلاکتوں کی تعداد 35 بتائی ہے اور اس نے 18 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع دی ہے۔
ایران کے سرکاری خبر رساں ایجنسی آئی آر این اے (ارنا) نے ایک مقامی ایمرجنسی اہلکار محمد علی ملک زادہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ حادثہ منگل کی رات کو وسطی ایران کے صوبے یزد میں پیش آیا۔
علی زادہ نے حادثے میں 28 افراد کی فوری طور پر ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ 23 افراد زخمی ہوئے، جن میں سے 14 کی حالت کافی تشویشناک ہے۔ زخمیوں کو یزد کے ہسپتالوں میں بھرتی کیا گیا ہے۔
ایران کے سرکاری ٹی وی نے اطلاع دی ہے کہ "پاکستانی زائرین کو لے جانے والی ایک بس منگل کی رات وسطی صوبے یزد میں دہشیر تافت چوکی کے سامنے الٹ گئی اور اس میں آگ لگ گئی۔"
اس میں مزید کہا گیا کہ "اب تک 28 افراد ہلاک اور 23 زخمی ہو چکے ہیں، جبکہ ہلاکتوں کی تعداد میں اضافے کا خدشہ ہے۔"
اس حادثے کے بارے میں ہمیں مزید کیا معلوم ہے؟
خبر رساں ادارے اے پی اور اے ایف پی کے مطابق حادثے کے وقت بس میں 51 افراد سوار تھے، جو سب پاکستانی زائرین تھے اور اربعین کے مذہبی جلوس میں شرکت کے لیے عراق جا رہے تھے۔
تاہم پاکستانی میڈيا اداروں کے مطابق بس میں کل 53 مسافر سوار تھے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق پاکستان کے لاڑکانہ، گھوٹکی اور صوبہ سندھ کے دیگر شہروں سے تھا۔
حادثے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور ریسکیو اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچے اور لاشوں اور زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا گیا۔ زخمیوں کے علاج کے لیے حکام نے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا حکم دیا۔
ادھر پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "ایران میں بس حادثے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر ہمیں گہرا دکھ ہوا ہے۔"
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی)اچ
پاکستانی شیعہ کمیونٹی کا ملک گیر احتجاج اور دھرنے
بلوچستان کے جنوب مغربی علاقے مستونگ میں منگل کو شیعہ زائرین کی ایک بسں پر حملے اور ہلاکتوں کے خلاف کوئٹہ، کراچی، لاہور اور ملک کے دیگر حصوں میں احتجاج جاری ہے۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
کراچی میں ایک شیعہ مسلمان لڑکی منگل کے روز ہونے والے واقعے کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ بلوچستان کے جنوب مغربی علاقے مستونگ میں ہونے والی اس فرقہ ورانہ کارروائی میں بڑی تعداد میں شیعہ زائرین سمیت کم از کم اٹھائیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
تصویر: Reuters
کراچی میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے باعث ٹریفک کا نظام درہم برہم ہو چکا ہے۔ ان مظاہروں میں خواتین، مرد اور بچے بھی شامل ہیں۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ملک میں نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم عسکری تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے۔
تصویر: Reuters
شیعہ کمیونٹی کی طرف سے لاہور میں بھی احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ شرکاء کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے، احتجاج جاری رہے گا۔
تصویر: AFP/Getty Images
کوئٹہ میں علمدار روڈ کے قریب ٹائر جلاتے ہوئے احتجاج کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً 20 فیصد حصہ شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔
تصویر: /AFP/Getty Images
ہزارہ شیعہ کیمونٹی کے سینکڑوں افراد نے مستونگ مں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں کے ہمراہ کوئٹہ میں علمدار روڈ پر دھرنا دے رکھا ہے۔ اس احتجاج میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شریک ہے۔
تصویر: AFP/Getty Images
ہزارہ کمیونٹی کے افراد کو پہلے بھی متعدد مرتبہ دہشت گردانہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اسی طرح کے احتجاج کے نتیجے میں صوبائی حکومت کا خاتمہ ہوا تھا اور ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters
مجلس وحد ت المسلمین کے رہنما علامہ ہاشم موسوی کے بقول، ’’ہم اپنا دھرنا جاری رکھیں گے اور پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔ وفاقی حکومت کا نمائندہ آئے اور اپنے ساتھ ٹارگٹڈ آپریشن پر عمل درآمد کے حوالے سے ضمانت پیش کرے، تب ہی ہم دھرنا ختم کر کے شہداء کی تدفین کریں گے۔‘‘
تصویر: G. Kakar
بلوچستان کے وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بدھ کو علمدار روڈ کا دورہ کیا اور اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ہزارہ برادری کے دھرنے میں شامل اراکین سے دھرنا ختم کرنے کو کہا تاہم مظاہرین نے ان کا مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔
تصویر: DW/A. Ghani Kakar
شیعہ کمیونٹی کے خلاف حملوں کا خطرہ اب بھی موجود ہے۔ کوئٹہ کی مختلف امام بارگاہوں کی سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔