1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران میں ’یہودی شہداء‘ کی یادگار

امتیاز احمد21 جنوری 2015

پہلی نظر میں یہ بات عجیب محسوس ہوتی کہ جس ملک میں ’یہودی مردہ باد‘ اور اسرائیل کے جھنڈے جلائے جاتے ہوں، وہاں یہودیوں کی ’خدمات‘ کا اعتراف کون کرے گا ؟ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

Gräber von Juden im Iran
تصویر: Behrouz Mehri/AFP/Getty Images

تہران حکومت نے عراق، ایران جنگ میں ہلاک ہونے والے ایرانی یہودیوں کے اعتراف میں ایک یاد گار تعمیر کی ہے۔ یہ یادگار ایران کے جنوب میں واقع آٹھ ایکڑ رقبے پر محیط یہودی قبرستان میں تعمیر کی گئی ہے۔ ایران میں یہودیوں کا کئی صدیوں پرانا ورثہ موجود ہے۔ آج بھی ایران میں یہودیوں کی ایک چھوٹی سے کمیونٹی آباد ہے۔ اس کمیونٹی کے رہنماؤں نے ’امتیازی سلوک‘ اور ’تحفظات‘ کے باوجود اس نئی یادگار کو خوش آئند قرار دیا ہے۔ تہران میں یہودی کمیونٹی کے سربراہ ہمایوں نجف آبادی کا کہنا تھا، ’’جو بھی اس یادگار کو دیکھے گا، وہ ان قربانیوں کو یاد کرے گا، جو یہودی شہدا نے دی ہیں۔‘‘

قبرستان میں بنائے جانے والے اس یادگاری تختے پر دس یہودیوں کے نام کنندہ کیے گئے ہیں۔ ان میں سے پانچ یہودی 1980 سے 1988 تک عراق کے خلاف جاری رہنے والی جنگ میں مارے گئے تھے، تین اس وقت ہلاک ہوئے تھے، جب دوران جنگ صدام حسین نے تہران پر بمباری کی تھی جبکہ دیگر دو ایرانی شاہ کے آخری دور میں بدامنی کے دوران مارے گئے تھے۔

یہودیوں کے لیے یادگار دس قبروں کی بحالی کا کام اس ایرانی تنظیم کی مالی مدد سے انجام دیا گیا ہے، جس کا کام عراق ایران جنگ میں زخمی یا مارے جانے والے فوجیوں کے اہلخانہ کی مدد کرنا ہے۔ انقلاب ایران سے پہلے اس ملک میں آباد یہودیوں کی تعداد تقریبا 80 ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان تھی لیکن بعدازاں ان میں سے زیادہ تر امریکا، اسرائیل اور یورپ کی طرف نقل مکانی کر گئے۔ اب ایران میں آباد یہودیوں کی تعداد تقریباﹰ ساڑھے آٹھ ہزار ہے اور ان میں سے زیادہ تر تہران، اسفہان اور شیراز میں آباد ہیں۔

ایران کی یہودی کمیونٹی سرکاری طور پر تسلیم شدہ تین مذہبی اقلیتوں میں سے ایک ہے اور پارلیمان میں اس کا ایک رکن نامزد ہے۔ ارمینی عیسائیوں کے دو نامزد ارکان پارلیمنٹ میں موجود ہیں جبکہ پارسیوں اور کلدانی مسیحیوں کا ایک ایک رکن ملکی پارلیمان کا حصہ ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق سابق ایرانی صدر احمدی نژاد کے برعکس ایران کے موجودہ صدر حسن روحانی پالیسوں میں تبدیلیاں لائے ہیں۔

ایران اور مغربی دنیا کے مابین تعلقات کی بہتری کی راہ میں رکاوٹ محض تہران کا متنازعہ ایٹمی پروگرام ہی نہیں رہا ہے بلکہ ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد کے اسرائیل کے خلاف تند و تیز بیانات بھی اس کی بڑی وجہ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ احمدی نژاد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے سامنے یہودیوں کے قتل عام کو جھٹلاتے بھی رہے ہیں۔ ایران کی نئی قیادت اپنے ملک کی ساکھ کو بہتر بنانے اور ایران کی ایک مصالحتی شکل پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اعتدال پسند صدر حسن روحانی نے اقتدار میں آتے ہی ہولوکاسٹ کی مذمت کی تھی، جبکہ صدر روحانی کی طرف سے ایک ٹوئیٹر پیغام میں خیر سگالی کے طور پر یہودیوں، خاص طور سے ایران میں آباد یہودی برادری کو اُن کے نئے سال کے موقع پر نیک تمناؤں کا پیغام دیا گیا تھا۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں