صدر ابراہیم رئیسی کی گزشتہ ماہ ایک ہیلی کاپٹر حادثے میں موت کے بعد ایرانی آج جمعہ اٹھائیس جون کو نئے صدر کے انتخاب کے لیے ووٹ ڈال رہے ہیں۔ ابتدائی نتائج کل صبح تک جب کہ حتمی نتائج اتوار تک آجانے کی امید ہے۔
اشتہار
دنیا کی بڑی طاقتوں کی طرف سے عائد پابندیوں سے متاثر ایران میں یہ انتخاب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب غزہ میں جنگ جاری ہے اور خطے میں کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔
انتخابات میں تقریباً61 ملین اہل ووٹرز اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں گے۔ ملک کی طاقت ور شوریٰ نگہبان نے صرف چھ امیدواروں کو اپنی قسمت آزمانے کی اجازت دی ہے۔ ان میں صرف مسعود پزشکیان کو اصلاح پسند کہا جاتا ہے بقیہ دیگر پانچ امیدوار قدامت پسند نظریات کے حامل ہیں۔
دیگر امیدواروں میں پارلیمان کے موجودہ اسپیکرمحمد باقر قالیباف، ملک کے جوہری پروگرام میں ایران کے سابق اعلیٰ مذاکرات کار سعید جلیلی، ابراہیم رئیسی کے نائب امیر حسین غازی زادہ ہاشمی، سابق وزیر داخلہ مصطفی پور محمدی، تہران کے موجودہ میئر علی رضا زاکانی شامل ہیں۔
اپنے حریفوں میں نسبتاً سب سے اعتدال پسند سمجھے جانے والے انہتر سالہ پزشکیان نے سن 2021 میں بھی صدارتی الیکشن لڑنے کی کوشش کی تھی لیکن شوریٰ نگہبان نے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔
چھ علماء اور چھ فقہاء پر مشتمل انتہائی طاقت ور آئینی ادارے شوریٰ نگہبان درخواست دہندگان کی جانچ پڑتال کے بعد پیشہ ورانہ قابلیت اور اسلامی جمہوریہ ایران سے ان کی نظریاتی وابستگی کی بنیاد پر امیدواروں کو انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دیتی ہے۔ اس مرتبہ اس نے سابق صدر محمود احمدی نژاد اور سابق اسپکر علی لاریجانی کی درخواستیں مسترد کردیں۔
ابتدائی نتائج کل صبح تک متوقع
صدر کے انتخاب کے لیے ووٹنگ آج صبح مقامی وقت کے مطابق آٹھ بجے شروع ہوگئی۔ ملک بھر میں تقریباً 59 ہزار پولنگ اسٹیشن بنائے گئے ہیں، ان میں سے بیشتر اسکولوں اور مساجد میں ہیں۔
پولنگ تقریباً دس گھنٹے تک جاری رہے گی لیکن حکام کا کہنا ہے کہ ضرورت پڑنے پر ووٹنگ کے وقت میں توسیع کی جاسکتی ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ پولنگ کے ابتدائی نتائج ہفتے کی صبح تک آجانے کی امید ہے جب کہ حتمی نتائج اتوار تک متوقع ہیں۔
اگر کوئی امیدوار 50 فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا ہے تو الیکشن کا دوسرا دور پانچ جولائی کو ہو گا۔ یہ مقابلہ سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان ہو گا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ سن 2005 کے بعد صرف دوسری بار ہو گا۔
اصل طاقت سپریم لیڈر کے ہاتھوں میں
ایران کا نیا صدر خواہ جو بھی منتخب ہو ایرانی آئین کی رو سے طاقت کا اصل مرکز سپریم لیڈر ہوتا ہے۔ نئے صدر کو بھی موجودہ سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے سیاسی فیصلوں کو حکومتی ذرائع کے توسط سے نافذ کرنا ہو گا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے اس ہفتے عوام سے نئے صدر کے انتخاب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی اپیل کرتے ہوئے کہا تھا، "سب سے زیادہ اہل امیدوار وہ ہونا چاہئے جو سن 1979 کے اسلامی انقلاب کے اصولوں پر یقین رکھتا ہو،" جس نے امریکی حمایت یافتہ باشاہت کا تختہ الٹ دیا تھا۔
انہوں نے کہا تھا کہ اگلے صدر کو "ایران کو غیر ممالک پر انحصار کے بغیر آگے بڑھنے" کے لیے کام کرنا چاہئے۔ تاہم خامنہ ای نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ایران کو "دنیا کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع نہیں کرنے چاہئیں۔"
ایرانی شاہ کے حرم کی نایاب تصاویر
اُنیس ویں صدی کے ایرانی فرمانروا ناصر الدین شاہ قاجار کی 80 سے بھی زائد بیویاں تھیں۔ اس بادشاہ کے حرم میں موجود ملکاؤں اور شہزادیوں کی تصاویر کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ اس وقت خوبصورتی کے معنی آج سے کس قدر مختلف تھے۔
تصویر: IICHS
تقریباﹰ تین ہزار سالہ طویل ایرانی بادشاہت کے امین ناصر الدین شاہ قاجار نے تقریباﹰ اڑتالیس برسوں تک ایران پر حکومت کی۔ جہاں پہلے تصویر کشی کا کام مصور سرانجام دیتے تھے، وہاں ناصر الدین شاہ قاجار نے حرم کے لیے ایک فوٹو گرافر مقرر کیا۔ ناصر الدین شاہ فوٹو گرافی کے بڑے شوقین تھے۔
تصویر: shafaf
ناصر الدین شاہ قاجار کی ایک بیوی تاج الدوله کی بیٹی شہزادی عصمت الدولہ (تصویر میں دائیں جانب) ایران میں پیانو بجانے والی پہلی خاتون تھیں۔ شاہ نے اپنے یورپ کے دورے پر پیانو دیکھا تھا اور پھر اسے اپنے یہاں منگوا لیا۔ تصویر میں نظر آنے والی چھوٹی بچی شہزادی عصمت الدولہ کی بیٹی فخر التاج ہے۔
تصویر: IICHS
ناصر الدین شاہ کو اپنی دو بیویاں تاج الدولہ اور انیس الدولہ بہت زیادہ عزیز تھیں۔ یہ تصویر شہزادی عصمت الدولہ کی ہے۔ شہزادی کے چہرے پر ہلکی مونچھیں نظر آ رہی ہیں کیونکہ اس زمانے میں چہرے پر سے بال ہٹانے کا رواج نہیں تھا۔
تصویر: IICHS
شاہ ناصر کے دور حکومت (1848ء تا 1896ء ) میں ان کےحرم میں کھینچی گئی تصاویر میں نظر آنے والی خواتین خوبصورتی کے آج کے معیار سے بالکل مختلف نظر آتی ہیں۔ یہ تصویر شہزادی تاج السلطنه کی ہے، جو شاہ کی ملکہ مریم توران السلطنه کی بیٹی ہیں۔ اس دور میں گھنی بھنویں اور ہلکی ہلکی مونچھیں خوبصورتی کی علامت ہوا کرتی تھیں اور انہیں سیاہ میک اپ کے ذریعے مزید ابھارا جاتا تھا۔
تصویر: IICHS
19 ویں صدی کے اس بادشاہ کے دور میں بچوں سے لے کر بڑوں تک کی تصاویر بنائی گئیں۔ اس تصویر میں ناصر الدین شاہ کی بیٹی عصمت الدولہ اور خاندان کے دیگر افراد کو دیکھا جا سکتا ہے۔ شاہ نے اپنے دربار میں دنیا کا پہلا باقاعدہ فوٹو اسٹوڈیو قائم کروایا۔ 1870ء کی دہائی میں شاہ نے ایک روسی فوٹو گرافر کو اپنے دربار کا سرکاری فوٹوگرافر مقرر کیا۔
تصویر: IICHS
اس تصویر میں خانم عمه بابا جان، خانم عصمت الملوک، عمو جان دیگر افراد کے ہمراہ نظر آ رہی ہیں۔ روسی فوٹو گرافر کو صرف شاہ اور ان کے مرد رشتہ داروں کی تصاویر لینے کی اجازت تھی لیکن حرم میں فوٹو گرافی صرف شاہ خود کرتے تھے۔ وہ ان تصاویر کو ڈیویلپ بھی خود کرتے تھے اور پھر تصاویر کو بڑے البموں میں محل کے اندر سجا کر رکھتے تھے۔
تصویر: IICHS
اُس دور میں شہزادیوں اور ملکاؤں کو پردے کا خاص اہتمام کروایا جاتا تھا۔ ایسے لباس صرف حرم میں ہی پہنے جا سکتے تھے اور ظاہر ہے ملک کے سب سے طاقتور شاہ ہی ایسی تصاویر بنانے کی ہمت کر سکتے تھے۔
تصویر: IICHS
حرم کی اس اندرونی تصویر سے معلوم ہوتا ہے کہ خواتین کا حصہ بالکل الگ تھلگ تھا اور وہ آپس میں مل جل کر رہتی تھیں۔ اس تصویر میں یہ واضح نہیں ہے کہ خواتین کیا کر رہی ہیں لیکن تاریخ دانوں کے مطابق یہ کسی کھیل کا آغاز ہو سکتا ہے کیوں کہ حرم میں خواتین وقت گزارنے کے لیے مختلف کھیل بھی کھیلا کرتی تھیں۔
تصویر: IICHS
تصاویر میں شہزادیوں کے بھاری بھرکم جسم دیکھ کر لگتا ہے کہ تب ایسے ہی جسم خوبصورتی کی علامت تھے۔ خواتین چھوٹی اور کڑھائی والی سکرٹ پہنتی تھیں۔ ان کے علاوہ طویل کڑھائی والے فراک بھی شاہی خواتین کو بہت پسند تھے۔
تصویر: IICHS
کئی تصاویر ایسی بھی ہیں، جو شہزادیوں کی روز مرہ زندگی پر روشنی ڈالتی ہیں۔ اس تصویر میں ایک شہزادی کو درختوں سے انار اتار کر انہیں ایک جگہ ترتیب سے رکھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: IICHS
یہ تصویر عصمت الدولہ کی 1905ء میں وفات کے بعد لی گئی تھی۔ تب ملیریا لا علاج بیماری تھی اور اس شہزادی کی موت بھی اسی بیماری کی وجہ سے ہوئی تھی۔
تصویر: IICHS
آخری قطار میں دائیں جانب جہاں سوز مرزا کھڑے ہیں، درمیان میں یادالله مرزا اور بائیں جانب جہانگیر مرزا ہیں۔ دوسری قطار میں بائیں جانب بلقیس خانم ہیں (اہلیہ احمد مرزا معین الدوله)، مہر ارفع (اہلیہ احمد خان سرتیپ)، خانم تاج الدوله (اہلیہ ناصرالدین شاه)، جہاں بانو خانم (اہلیہ شاه شیر سوار) اور سب سے آگے جہان سلطان خانم ہیں، جو شمس الشعراء کی اہلیہ تھیں۔
تصویر: IICHS
اس تصویر میں عصمت الدولہ کی بیٹی عصمت الملوک کو اپنے خاوند مرزا حسن مستوفی الممالک کے ہمراہ دیکھا جا سکتا ہے۔